وزیر داخلہ محفوظ نہیں ۔عوام کا کیا ہوگا

295

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال اتوار کے روز فائرنگ کے ایک واقعے میں زخمی ہوگئے۔ واقعہ نارووال میں ہوا جہاں وزیر داخلہ ایک تقریب سے خطاب کے بعد واپس جارہے تھے۔ وزیر داخلہ پر حملے کے بعد مسلم لیگ ن کے پاس ایک اور ایشو آگیا ہے جس کے ذریعے وہ ممکنہ انتخابی مہم چلانے میں آسانی محسوس کرے گی۔ پورے میڈیا پر اتنا شور مچا ہوا ہے کہ وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ، شدید زخمی، کسی نے تو انسانیت کے قتل کے حوالے سے سرخی جمادی۔ لیکن وزیر داخلہ پر حملے کو محض ایک پارٹی کے رہنما پر حملہ نہ قرار دیا جائے بلکہ یہ ملک کے وزیر داخلہ پر حملہ ہے۔ اگر یہ حملہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا بیان کیا گیا ہے تو پھر تشویش کی بات وزیر داخلہ کے لیے نہیں 20 کروڑ عوام کے لیے ہے وہ کہاں جائیں۔ ان کو تو گولی لگنے کے بعد ہیلی کاپٹر کیا ایمبولینس یاگاڑی بھی نہیں ملتی ۔اسپتال پہنچ جائیں تو ڈاکٹر نہیں ملتا۔ وزیر داخلہ پر حملے کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ان کی سیکورٹی واپس لیے جانے کے نتیجے میں یہ قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ حالاں کہ اگر یہ حملہ ہی تھا تو سیکورٹی کیا کرلیتی۔ کیا وہ فائر کو روک لیتی، یہ ممکن نہیں ۔ تو پھر وہ کیا کرتی، زبردست فائرنگ کر کے حملہ آور کو مار دیا جاتا اس کے بعد کوئی ثبوت بھی نہیں بچتا اب کم از کم حملہ آور یا مبینہ حملہ آور سے معلومات لی جاسکتی ہیں تفتیش تو ہوسکتی ہے کہ اسے کس نے بھیجا تھا۔ آج کل عدالت عظمیٰ یا نیب جس انداز میں کام کررہے ہیں وہ اسپتال میں بھی بیان اور جرح کا عمل مکمل کرلیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر میں عوام خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں انہیں جرائم پیشہ افراد سے الگ ڈر لگتا ہے لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ انہیں اپنے وزیر داخلہ پر حملے کے بعد اپنے غیر محفوظ ہونے کا زیادہ احساس ہے۔ اور اگر یہ حملہ فرضی یا ڈراما ہے تو پھر زیادہ افسوس ناک بات ہے ۔اس حملے پر مقدمہ درج ہوگیا ہے جے آئی ٹی بن گئی ہے لیکن اس سے کیا ہوگا۔ اس کے حقائق تک پہنچنے میں دیگر جے آئی ٹیز کی طرح کئی ہفتے لگیں گے اور کسی کو پتا نہیں چلے گا کہ ہوا کیا تھا۔ ممکن ہے نئے انتخابات کے شور میں سب کچھ دب جائے۔ ابھی تو ملزم کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ احسن اقبال پر حملہ ختم نبوت پر کیا ہے لیکن یہ بات پولیس کو دیے گئے اعترافی بیان کا حصہ ہے جو سچ کے سوا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں تک سیکورٹی کا تعلق ہے تو صرف سندھ کی رپورٹ ہے کہ ایک صوبے میں غیر منتخب لوگوں کی سیکورٹی پر 226اہلکار اور 17 گاڑیاں مامور ہیں ۔ اور منتخب نمائندوں کی سیکورٹی پر 571 اہلکار اور 59گاڑیاں مامور ہیں ۔ لیکن یہ ہرگز حقیقت نہیں ہے منتخب اور غیر منتخب افراد کے قافلے 20سے 30 افراد مشتمل ہوتے ہیں۔مختصر سی سیکورٹی فورس کا بڑا حصہ وی آئی پی ، وی وی آئی پیز کی سیکورٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عوام بے چارے کہا ں جائیں۔