قلم ناک یادیں

733

عم محترم مولانا ابوالجلال ندوی ؒ کا قاعدہ تھا کہ اگر کوئی بچہ بھی کوئی بے سند بات کہہ دے تو (خواہ وہ کتنے ہی ضروری کام میں مصروف ہوں) فی الفور اُس کی اِصلاح فرماتے۔ بچہ سمجھ کر نظر انداز نہ کرتے۔ اِس کالم نگار کا اوّلین کالم ’’نوشتۂ دیوارپڑھ لیجیے‘‘ اُن کی زندگی ہی میں (27؍جون 1974ء کو) شائع ہوا تھا۔ اُنہوں نے اس ’’حادثۂ فاجعہ‘‘ کی خبر سنی تو حکم دیا:
’’اخبار لاؤ اور اپنا لکھا ہوا کالم خود سُناؤ‘‘۔
کسی کالم نگار کو دی جانے والی اس سے زیادہ قرار واقعی سزا ہماری نظر سے اب تک نہیں گزری۔
مولاناہماری خوف زدہ خواندگی کی سماعت کے دوران میں جا بجا تلفظ کی اِصلاح بھی کرتے جاتے تھے۔ تلفظ تو گیا ٹی وی چینلوں کے بھاڑ میں، اب تو ذرائع ابلاغ میں کوئی املا کی اصلاح کرنے والا بھی نہیں پایا جاتا۔ مولانا نے جب ’وال چاکنگ‘ کے متعلق ہمارے کالم کا یہ فقرہ سُنا کہ:
’’یہ رسمِ کہن قیسِ عامری کے دور سے دیوار بہ دیوار چلتی چلی آرہی ہے۔۔۔ کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر‘‘۔
تو مسکرا کر اِس فقرے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا:
’’یہ رسم اس سے بھی پہلے سے چلی آرہی ہے ۔۔۔ خیر آگے پڑھو!‘‘
یہ جملۂ معترضہ فقط جملۂ معترضہ ہی بن کر نہیں رہ گیا۔ بعد میں اُنہوں نے دیواروں پر پائے جانے والے قدیم کتبات کی داستانیں سُنائیں جو اُن کے متعدد مضامین میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین شعبۂ تصنیف وتالیف وترجمہ (جامعہ کراچی) کے رسالے ’جریدہ‘ شمارہ (22) میں دیکھے جاسکتے ہیں اور ایک مضمون اس عاجز کی کتاب ’’مولانا ابوالجلال ندویؒ ۔۔۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ‘‘ میں۔ یہ کتاب ’’اکیڈمی بک سینٹر‘‘، اسلامک ریسرچ اکیڈمی،D-35 بلاک 5، فیڈرل بی ایریا، کراچی پر دستیاب ہے۔
ایک فکاہیہ کالم کا ایک چلتا ہوا فقرہ جو صرف ایک ’دیواری‘ مصرع استعمال کرنے کی خاطر لکھا گیا تھا، ایک بزرگانہ روک ٹوک کی وجہ سے کس طرح علم میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ مولانا کا موقف یہ تھا کہ مذاق میں بھی اپنے قارئین تک کوئی ناقص، نامکمل اور بے سند بات نہ پہنچاؤ۔ نصیحت یہ تھی کہ اپنے جہل کے اعتراف اور اپنی غلطی کی اصلاح کے لیے ہمیشہ آمادہ اور تیار رہو۔ نصیحت گرہ میں باندھ لی۔
مگر اسی نصیحت سے ایک مرض بھی پیدا ہوگیا۔ وہی جو حضرتِ حفیظؔ جالندھری کو لاحق تھا کہ۔۔۔ ’ہر بُری بات بُری بات نظرآتی ہے‘ ۔۔۔ تاہم اب اتنی قوتِ برداشت اپنے اندر پیدا کرلی ہے کہ غلط اِملا، غلط اشعار اور غلط فقرے سہ سہ کر نظرانداز کرنے لگے ہیں۔ بعض اوقات غلط خیالات بھی۔ اپنے آپ ہی کو سمجھا لیتے ہیں کہ ۔۔۔ مت کہو گر غلط چلے کوئی ۔۔۔ چُپ رہو گر بُرا کرے کوئی۔ہر چند کہ بعض اوقات ۔۔۔ کیا کَہیں؟ کچھ کہا نہیں جاتا ۔۔۔ بِن کہے بھی رہا نہیں جاتا!
ابھی چند ہی روز پہلے کی بات ہے۔ ایک مدیرِ محترم ’تبصرۂ کتب‘ پر تبصرہ کر رہے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ کتاب خوانی کے فروغ کے لیے کتابوں کی بہرصورت ستائش ہی کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو کتاب پڑھنے کی عادت پڑے۔ اِس جاہل کالم نگارکا خیال تھا کہ قارئین کو کتابوں سے بدظن ہونے سے بچانے اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کتاب کے ’حسن ‘ اور کتاب کے ’قُبح‘ دونوں سے آگاہ کیا جائے۔ انجمن تحسینِ باہمی نہ تشکیل دی جائے۔ عربی زبان میں ’تنقید‘ کا لفظ اصلاً پرندوں (مثلاً مرغی وغیرہ) کے دانہ چگنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جس طرح ایک پرندہ خس وخاشاک الگ کرکے اُس میں سے اپنی غذا چن لیتا ہے، اسی طرح کتاب وغیرہ کی خوبیاں اور خامیاں بھی چن چن کر الگ الگ کردینا تنقید کہلائے گا۔ (تنقید کا مطلب محض تنقیص نہیں ہے، اس میں تحسین بھی شامل ہے)۔ پھر رشوت، سفارش یا اقربا پروری کی بنیاد پر انتقاد کرنا یعنی قلم فروشی کرنا تو ایسا جرم ہے، جس کی سزا سنگساری ہونا چاہیے۔
اس بات پرلڑکپن کا ایک اور منظر حافظے کے پردے پر اُبھر آیا، اور ایک نصیحت مزید یاد آگئی۔
سندھ مُسلم سائنس کالج کی سماعت گاہ تھی۔ کالج کی’بزمِ اُردو‘ کی طرف سے ایک توسیعی خطبہ کا انعقاد ہورہا تھا۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مہمانِ خصوصی تھے۔ کالج کے پرنسپل محترم حشمت اللہ لودھی اِس تقریب کے صدر نشین تھے اور مہمانِ خصوصی کے بائیں پہلو میں براجمان تھے۔ کالج کی ’بزمِ اُردو‘ کے صدر محترم پروفیسر اشرف شیر صاحب (جو کالج کے شعبۂ اُردو کے بھی سربراہ تھے) ڈائس پر تعارُفی وخیر مقدمی کلمات ادا کررہے تھے۔ ’بزمِ اُردو‘ کا معتمد عمومی جو سالِ دوم کا طالب علم تھا اور تقریب کی نظامت بھی کررہا تھا، مہمانِ خصوصی کے دائیں جانب اُن کاہم نشیں تھا۔
یکایک ڈاکٹر صاحب کو کچھ نوٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُنہوں نے طالب علم سے کاغذ طلب کیا۔ کالج فائل سے کاغذ نکال کر دینے کے ساتھ ساتھ طالب علم نے ڈاکٹرصاحب کی خدمت میں اپنا قلم بھی پیش کردیا۔ ڈاکٹر صاحب مُسکرائے۔ اپنے کوٹ کی بائیں جانب واقع اوپری جیب سے اپنا فاؤنٹین پین نکالا اور طالب علم سے کانا پھوسی کی:
’’میاں! ایک بات ہمیشہ یاد رکھو۔ اپنی بیوی اور اپنا قلم کبھی دوسرے کو نہیں دیتے!‘‘
کہنے کو تو یہ بس ایک شوخ، شگفتہ فقرہ تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اس ’صاحبِ قلم‘ کو قلم کی عصمت سے متعلق، غیرت کا جو سبق اِس مختصر سے شگفتہ فقرے میں دے دیا وہ آج تک ذہن پر نقش ہے۔
تقریب کے بعد ڈاکٹر صاحب کے آگے آٹوگراف بُک پیش کی۔ قلم پیش کرتے کرتے یک دَم گھبرا کر واپس کھینچ لیا۔ اساتذہ نے اِس بدتمیزی پر گھور کر دیکھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر مُسکرائے۔ اپنے کوٹ کی بائیں جانب واقع اوپری جیب سے اپنا فاؤنٹین پین نکالا اور تحریر کیا:
’’اگرکوئی کام اِس لایق ہے کہ کیا جائے، تو یقیناًوہ اِس لایق بھی ہے کہ حسن وخوبی اور خوش اُسلوبی سے کیا جائے‘‘۔
ان واقعات کے ایک برس بعد یہ عاجز جامعہ کراچی کا طالب علم ہوگیا۔ مگر اب ڈاکٹر صاحب شیخ الجامعہ نہ تھے۔ اُس وقت تک ’صدر بھٹو‘ دیگر ’اسلام پسندوں‘ کے ساتھ اُن کو بھی ’فکس اَپ‘ کرچکے تھے۔
اُنھی دنوں، ایک روز ایک تعلیمی مذاکرے میں ڈاکٹر صاحب سے پھر ملاقات ہوگئی۔ برس بھر پہلے کی باتیں یاد آگئیں۔ اُس تقریب میں نوجوان مقرر نے کچھ نئے حالات کا شکوہ کیا، کچھ وسائل کی قلت کو عذر کے طور پر پیش کیا اور کچھ سہولتوں کی عدم دستیابی کارونا رویا۔ ڈاکٹر صاحب جب اپنا خطبۂ صدارت دینے آئے تو اُنہوں نے نوجوان کو بطورِ خاص مخاطب کیا اور فرمایا:
’’ایک جرمن ادیب کا کہنا ہے کہ اِس اندھیروں بھری دُنیا میں جینا اور اِس کی تاریکیوں ہی میں جو کچھ بن سکے کرگزرنا، فلسفۂ زندگی ہے۔ عزیز من! تُمہیں بھی جو کچھ کرنا ہے، وہ انھی حالات میں اور انھی وسائل کی مدد سے کرنا ہے‘‘۔
سو، اُس روز یہ بات بھی ذہن پر نقش ہوگئی۔ سادہ صفحاتِ ذہن پر اور بھی کئی باتیں نقش ہوتی رہیں۔ اُن سب کا ذکرکرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ کسی روز یہ گنجائش بھی ضرور نکل آئے گی اور ان سب کا ذکر ہوگا۔ آج تو مختصراً بس یہ سمجھ لیجیے کہ اُس دور کی ایسی ہی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں کے نقوش اوراقِ ذہن پر پڑتے اور ثبت ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ہوتے ہوتے ایک روزیہی مخصوص ذہن بن گیا۔ ایسا بناکہ اب بگڑتا ہی نہیں۔
مگر اب ایسے ذہن ساز اساتذہ اور فکر سازاہلِ قلم کہاں؟