بہتر صحت کے لیے طرزِ زندگی میں تبدیلی ضروری ہے

360

برطانیہ میں ایک تازہ تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیائی خاندانوں کے افراد اپنی غذا اور جسمانی نقل و حرکت میں معمولی تبدیلی سے وزن کم کر سکتے ہیں اور اپنے لیے ذیابیطس سے بچنے کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔ایڈنبرا یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیائی افراد معمولی تبدیلیوں سے اپنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔یہ مطالعہ اسپتالوں کے بجائے لوگوں کے گھروں میں کیا گیا تھا جو کہ برطانیہ میں جنوبی ایشیائی یعنی پاکستانی اور بھارتی نژاد افراد پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ نسلی اور ثقافتی پس منظر کسی خاندان کے غذا اور ورزش کی طرف رویے پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔قومی رہنما اصولوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیائی لوگ خاندانی زندگی اور مل بیٹھ کر کھانا کھانے پر بہت زور دیتے ہیں۔ انہیں جوانی ہی میں مٹاپے کی وجہ سے بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔پاکستانی اور بھارتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات کو عام آبادی کے مقابلے میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تین سال پر محیط اس تحقیق میں اسکاٹ لینڈ میں رہائش پذیر پاکستانی اور بھارتی نژاد 171 افراد کا مطالعہ کیا گیا جنہیں پہلے ہی ذیابیطس کا خطرہ تھا۔ مطالعے میں شریک افراد کو غذا اور ورزش کے ذریعے وزن کو قابو کرنے کے لیے ماہرِ غذائیات نے تفصیلی مشورے دیے اور انہیں ان کی ثقافت کے لحاظ سے موزوں وسائل دیے گئے۔ اسی دوران مطالعے میں شریک ان گروپوں کو ایسے مشورے بھی دیے گیے جو ان کے ثقافت کے لحاظ سے مخصوص نہیں تھے۔اڈنبرا یونیورسٹی کے صحت اور آبادی کے سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیسر راج بھوپال نے کہا کہ ان مختلف طریقوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے ثقافت سے مطابقت رکھنے والے مشوروں سے لوگ وزن کم کر کے صحت کے بہت سے فائدے اٹھا سکتے ہیں

3
بچوں کے ساتھ کہانیاں اور کتابیں پڑھنا ان کی ذہنی نشوونما کو تیز کرتا ہے

امریکا کے طبی ماہرین نے سروے کیا ہے اور فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایف ایم آر آئی) کے ذریعے کتاب پڑھنے کے دوران 4 سالہ بچوں کا جائزہ لیا ہے۔ جب بچے کہانی سن رہے تھے تو اس دوران اُن کے دماغ میں غیرمعمولی مثبت سرگرمی دیکھی گئی۔ ماہرین نے والدین اور بچوں کے درمیان مکالماتی پڑھائی کرائی تھی جس کا مطلب ہے کہ والدین پڑھتے تھے اور بچے انہیں سنتے تھے اور والدین اس کہانی سے متعلق سوالات پوچھتے رہے۔ اس مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر جان ہٹن ہیں جو کہتے ہیں کہ والدین بچوں کے ساتھ کہانیاں اور کتابیں کچھ اس طرح پڑھیں کہ بچوں کو الفاظ بھی پڑھائیں، انہیں صفحہ پلٹنے دیں اور ان سے سوال و جواب بھی کریں۔اس طرح دماغ کو ایک طرح کی غذا ملتی ہے اور سپر چارج ہوجاتا ہے۔ کتابیں پڑھ کر سنانے کے عمل سے بچوں میں خواندگی پروان چڑھتی ہے اور ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے، ماہرین نے کہا کہ اس سروے میں چار سال کی 22 بچیوں کے ایف ایم آر آئی اس وقت لیے گئے جب وہ اپنی والدہ سے کہانی سن رہی تھیں۔

5
دہی کا استعمال ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے

ایک وسیع البنیاد تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ دہی کا استعمال بڑی عمر کے افراد میں بھی ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے جب کہ بزرگ خواتین کو اس سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ مطالعے میں شریک رضاکاروں کی ہڈیوں میں معدنیات کی کثافت (بی ایم ڈی) کے علاوہ ان کے کولہوں اور ٹانگوں کی ہڈیوں میں مضبوطی کا جائزہ لیا گیا تھا۔ جب ان افراد پر دیگر روزمرہ جسمانی معمولات اور غذا کے اثرات نفی کیے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے طویل عرصے تک 200 گرام دہی، ہفتے میں 2 سے 3 مرتبہ استعمال کی تھی ان میں کولہوں اور ٹانگوں کی ہڈیاں دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تھیں جب کہ ان میں مفید معدنیات کی مقدار بھی زیادہ دیکھی گئی۔ جب خواتین کی عمر 40 سال سے زیادہ ہوتی ہے تو ان کی ہڈیاں بھی کمزور ہونے لگتی ہیں اور وہ ہڈیوں میں بھربھرے پن (اوسٹیوپوروسس) اور معدنیات کی کمی (اوسٹیوپینیا) کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ ریسرچ جرنل اوسٹیو پوروسس انٹرنیشنل میں شائع شدہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ہفتے میں پابندی سے 3 مرتبہ (ہر بار 200 گرام) دہی استعمال کرنے والی عمر رسیدہ خواتین میں اوسٹیوپوروسس کی شرح 31 فیصد کم جبکہ اوسٹیوپینیا کی شرح 39 فیصد کم رہ گئی تھی۔ بوڑھے مردوں کو بھی دہی کے باقاعدہ استعمال سے بہت فائدہ پہنچا اور ان میں بھی ہڈیوں کے بھربھرے پن کی شرح 52 فیصد تک کم ہوگئی۔a