ٹرمپ کا جارحانہ انداز

305

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر نیا خلفشار پیدا کر دیا ۔ انہوں نے ایران سے کیا گیا جوہری معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ تہران پر پابندیاں مزید سخت کر دی جائیں گی اور جو اس سے تعاون کرے گا اس کو بھی سزا دی جائے گی ۔ ایران پر کئی برس سے امریکی پابندیاں عاید ہیں جن کا مقابلہ ایران بڑی پا مردی سے کرتا آ رہا ہے ۔ دو حکومتوں میں جب کسی معاملے میں معاہدے ہوتے ہیں تو ہر نئی حکومت بھی ان کا احترام کرتی ہے لیکن مسٹر ٹرمپ کسی معاہدے کا احترام کرنا نہیں جانتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران سے جوہری معاہدہ ہونا ہی نہیں چاہیے تھا اور معاہدے کو جاری رکھا گیا تو ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو جائے گا اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی ، دیگر ممالک بھی کوششیں تیز کر دیں گے ۔ مسٹر ٹرمپ کو شاید یاد نہیں رہا کہ دنیا میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ امریکا ہی نے شروع کی تھی اور سب سے پہلے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ جاپان پر اس کا تجربہ کر کے لاکھوں افراد کو موت کی نیند سلا دیا ۔ یہ پہلی اور اب تک کی آخری ایٹمی دہشت گردی تھی جس کا ارتکاب امریکا نے کیا ۔ اور اس کے بعد ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع ہو گئی ۔ جواب میں سوویت یونین نے ایٹمی اسلحہ بنایا اور اس وقت دنیا میں سات ایٹمی طاقتیں ہیں ۔ یہ طاقت اسرائیل بھی حاصل کر چکا ہے لیکن اس نے اس کا تجربہ نہیں کیا مگرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے ۔ 1996ء میں جب بھارت نے یکے بعد دیگرے چار ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی تھی تو امریکا نے اس کو روکنے یا مذمت کرنے کے بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ ایٹمی دھماکے نہ کرے ورنہ امداد روک دی جائے گی ۔لیکن اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اندرونی دباؤ کے تحت چار کے مقابلے میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو جواب دے دیا ۔ اگر اس وقت بے نظیر بھٹو حکمران ہوتیں تو یہ کام کبھی نہ ہوتا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں ہوتی تو ہرگز بھی یہ کام نہ کرتی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں بھی بے نظیر نے کہا تھا کہ پاکستان نے یورینیم افزودگی کی سرخ لکیر عبور کر لی ہے ۔ یہ پاکستان کے خلاف دشمنوں کو حرکت میں آنے کا اشارہ تھا اور ان کی بر طرفی کی وجوہات میں ایک سبب یہ بھی تھا ۔ ایران کے خلاف امریکی اقدام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران مسلمانوں کا ملک ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ ایک اور مسلم ملک ایٹمی طاقت بن جائے چنانچہ اپنے سوا دیگر 5 ایٹمی طاقتوں کے خلاف اس نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ ایٹمی توانائی ایجنسی کا عالمی ادارہ کئی بار ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کر کے اطمینان بخش رپورٹ دے چکا ہے ۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کے خلاف پورے یورپ ہی نے نہیں امریکا کے سابق صدر اوباما نے بھی تنقید کی ہے ۔ یورپی یونین نے گواہی دی ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ ٹرمپ کے اس اقدام پر سب سے زیادہ اسرائیل نے بغلیں بجائی ہیں ۔ صرف اسی سے ظاہر ہے کہ ٹرمپ کا اقدام مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ جس بات پر ہنود اور یہود خوش ہوں وہ لازمی طور پر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ایران پر پابندی کا خیر مقدم کیا ہے ۔ بعض عرب ممالک ایران کو خطرہ سمجھتے ہیں لیکن انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چراغ سب کے بجھیں گے ، امریکا کی مسموم ہوا کسی کی دوست نہیں ۔ امریکا اور اس کے پروردہ اسرائیل کی نظر یں تمام مسلم ممالک پر ہیں اور باری باری سب کی تباہی منصوبے کا حصہ ہے ۔ آج جو خوش ہو رہے ہیں کل ان کی باری آ سکتی ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد اور مصر کی حکومت سے اسرائیل کے بڑے گہرے تعلقات ہیں ۔ جب کہ قرآن کریم یہود سے خبر دار کرتا ہے ۔ اس وقت تمام مسلم ممالک کو باہمی اختلافات ایک طرف رکھ کر ایران کا ساتھ دینا چاہیے۔ آخر فرانس ، روس ، جرمنی اور برطانیہ نے بھی تو ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار افسوس کیا ہے ۔ عرب ممالک کم از کم اتنا ہی کر لیتے ۔ ایران کو بھی دوسرے ممالک میں مداخلت کی پالیسی پرنظر ثانی کرنا ہو گی ورنہ تفرقہ بڑھتا جائے گا ۔ٹرمپ کی دھمکی کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ہے اور کئی معاملات میں باہم تعاون بھی ہے۔ پاکستان اور ایران میں کئی برس پہلے گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہو چکا ہے لیکن امریکا کے خوف سے پاکستان کی حکومت نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ اب امریکی تیور دیکھتے ہوئے یہ معاملہ اور آگے بڑھ جائے گا۔ پاکستان کو یورپی ممالک کی طرح ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، امریکا یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔