چنگاریوں کا بیج اور شعلوں کی فصل

304

بے وجہ، بے سمت اور بے مقصد تشدد ایک ایسی ناگن ہے جو بین پر ناچ سے پہلے ہی سپیرے کو ڈس لیتی ہے۔ اسی لیے ہتھیار اُٹھانے کے لیے مقصدیت اور ٹھوس جواز کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تشدد برائے تشدد معاشروں کو کھوکھلا اور مضمحل کردیتا ہے اور آخر کار معاشرے کسی کرم خوردہ درخت کی طرح خود اپنے سائے اور جڑوں پر آن گرتا ہے۔ معاشروں کو دلائل اور براہین سے تسخیر کیا جانا ہی فائدہ مند عمل ہوتا ہے۔ بندوق کا راج سوشل اسٹرکچر کو بکھیرتا، ذہنوں کو آلودہ کرتا، صدیوں کے رواجوں اور روایات کو بہاتا، ایک ہلاکت خیز طوفان کی مانند گزرتا اور اپنے پیچھے المناک داستانوں اور بے شمار سماجی قباحتوں، تباہی کی گند اور کچرا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس لیے معاشروں کو زندہ رکھنے کے لیے دلیل اور براہین، انداز اور اسلوب کا ٹھیک رہنا ضروری ہوتا ہے۔ ریاست اور قیادت کی تقریریں کسی معاشرے میں بیج کا کردار ادا کرتی ہیں اگر ان میں جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ کا رنگ غالب ہوگا تو اس سے جو کونپل پھوٹے گی وہ متشدد رویوں کے حصار میں مقید ہوگی۔ یہ فصل جب لہلہانے کو پہنچے گی تو معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہوچکا ہوگا۔ اسی کی دہائی کے وسط میں الطاف حسین نے ٹی وی بیچ کر کلاشنکوف خریدیں کا جملہ کہا تھا تو اسے محض ایک لیڈر کی جذباتی بات اور مجمع گرم کرنے کا انداز سمجھا گیا ہوگا مگر بعد میں کراچی اس ایک جملے کے حصار میں یوں قید ہوگیا کہ کلاشنکوفیں آج بھی پانی کی ٹنکیوں اور زمین کی تہہ سے اُگتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی تمام تحریکوں اور تنظیموں نے تقریروں اور اسلوب سے جنم لیا۔
سیاست میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان نے اس وقت ایک تشویشناک رخ اختیار کیا جب وزیر داخلہ احسن اقبال پر ان کے حلقہ انتخاب نارووال میں عابد نامی ایک نوجوان نے گولی چلائی۔ حملہ آور ایک ہی گولی چلا سکا جو احسن اقبال کے بازوکو چیرتی ہوئی پیٹ میں جا لگی۔ احسن اقبال زخمی تو ہوئے مگر ملک ایک بڑے حادثے ہی سے نہیں جگ ہنسائی سے بھی بچ گیا۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں نے مذمت کی ہے۔ تفتیش وتحقیق کے بعد بتایا گیا کہ حملہ آور تحریک لبیک کا کارکن تھا اور وہ انتخابی اصلاحات بل کے بعد پیدا ہونے والے تنازعے کے زیر اثر یہ حرکت کر بیٹھا۔ انتخابی اصلاحات کے بل میں ختم نبوت سے متعلق شق کو حذف کیا گیا تھا جس پر ملک میں ایک بھونچال آگیا تھا۔ اسی مسئلے پر ایک مذہبی جماعت نے راولپنڈی اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تھا اور اس احتجاج کے باعث وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ختم نبوت ملک کا ایک ایسا معاملہ کے ساتھ رائے عامہ کے جذبات اور عقائد جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے طویل تجربے کے بعد ان قوانین کو متعارف کرایا تھا اور ان کا مقصد ملک میں ہجوم کے انصاف اور انارکی کو روک کر کسی بھی مسئلے کو قانونی اور آئینی راہ دینا تھا۔ مغرب کو یہ قوانین ایک آنکھ نہیں بھاتے اس لیے وہ ہر دور میں ان قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حکومتوں اور شخصیات کو شیشے میں اُتار کر ان قوانین سے چھیڑ چھاڑ کراتے ہیں جس کے بعد ملک میں تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں تشدد کا رجحان ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ حالات کے مطابق اس میں کبھی کمی اور کبھی تیزی آتی ہے۔ تشدد کا تعلق ذہن سازی سے ہوتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں سیاسی قیادت کا گہرا دخل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاسی قیادت جو زبان اور اسلوب اپنائے ہوئے ہے اس سے ذہنوں میں تلخی ہی تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ فوج کے خلاف تلخی، عدلیہ کے خلاف تلخی، سیاسی حریفوں کے خلاف تلخی اور یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت شیریں بیانی کو کسی طاق میں رکھ کر بھول گئی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ہر طرف سلطان راہی کی ماردھاڑ اور گنڈاسوں والی فلمیں چل رہی ہیں۔ جلسوں پر یہی رنگ غالب ہے۔ طعن واستہزاء، دشنام اور الزام سے بھرپور زبان معمول بن چکی ہے۔ معاشرہ پہلے ہی تشدد میں خودکفیل ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد، لسانی تشدد، سیاسی اور مذہبی تشدد نے کراچی سے خیبر تک ملک کے کسی نہ کسی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور خطرناک بات یہ کہ ان میں سے کئی قسم کے تشدد کو باہر سے ہوا مل رہی ہے۔ بیرونی عناصر کا مقصد پاکستان میں ایسی انارکی پھیلانا ہے جس کے اس تاثر میں ابہام باقی نہ رہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے لیے موزوں ملک نہیں۔ پاکستان چوں کہ ایک مسلمان ملک ہے اس لیے امریکا اور اس کے اتحادی نائن الیون سے پہلے ہی یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی صلاحیت انہیں قبول نہیں۔ جس ملک کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے اسے حیلوں بہانوں سے اس سے محروم کرکے ’’بن دانتوں کا شیر‘‘ بنا کر رکھ چھوڑنا ہے۔ اس لیے پاکستان میں تشدد کو ہوا دینا، انارکی کی طرف دھکیلنا بیرونی ایجنڈا ہے۔ ایسے ماحول میں سیاست دانوں کو اپنے لہجے کو شیریں اور معتدل رکھنا چاہیے تھا تاکہ معاشرے میں ایک نئی طرح کی سیاسی شدت پسندی کو فروغ نہ ملے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ بھی اسی ذہن سازی کا شاخسانہ ہے۔ اچھا ہوا کہ ملک کی پوری سیاسی قیادت نے بیک زبان اس واقعے کی مذمت کی مگر مذمت کافی نہیں۔ اس لیے ایک قومی ضابط�ۂ اخلاق کی تیاری ہونی چاہیے اور سیاست دانوں، مذہبی طبقات اور معاشرے اور ریاست کے تمام ستونوں کو اس ضابطہ اخلاق کا خود کو پابند بنانا چاہیے تاکہ معاشرے میں جذبات کو اس حد تک نہ بھڑکایا جائے کہ ذہن مغلوب ہو کر ہاتھ بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں اس میں کسی کا بھلا نہیں۔