کراچی (تجزیہ: محمد انور) اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بدھ کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نشر کیے جانے والے انعام گھر اور کھیل کود سے متعلق تمام پروگرامز کو بند کرنے اور رمضان کا تقدس بحال رکھنے کے لیے اہم حکم جاری کیا۔ عدالت کے اس حکم کی ملک بھر میں پذیرائی کی جا رہی ہے‘ لوگ اس فیصلے اور فیصلے کے تحت جاری احکامات کو وقت کی اہم ضرورت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد سے متعلق درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے وزارت اطلاعات، داخلہ اور پیمرا کو عدالتی ہدایات پر عمل کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ رمضان المبارک میں تمام چینلز 5 وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان مقامی وقت کے مطابق نشر کریں گے‘ اس کے علاوہ مغرب کی اذان سے5 منٹ قبل تک کوئی اشتہار نہیں چلایا جائے گا بلکہ درود شریف اور پاکستان کے استحکام، سلامتی اور امن کے لیے دعا کی جائے گی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ کوئی لاٹری اور جوئے پر مشتمل پروگرام، یہاں تک کے حج اور عمرے کے ٹکٹس کے حوالے سے بھی کسی پروگرام کو براہ راست یا ریکارڈیڈ نشر نہیں کیا جائے گا، اس کے علاوہ نیلام گھر اور سرکس جیسے پروگرامات لازمی رکنے چاہئیں۔ ہائی کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر کوئی سمجھوتا نہ ہو۔ یقیناً عدالت کا یہ فیصلہ اسلامی جمہوریہ ملک کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اس طرح کے پروگرام رمضان المبارک کے مہینے میں کسی طور پر بھی نشر نہیں کیے جانے چاہئیں۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ان پروگرامز کی اجازت دینا ہی غلط تھا۔ بعض ٹی وی چینلز پر فقہی مسائل پر بحث سے بڑے جھگڑوں کے خدشات بھی پیدا ہوجایا کرتے تھے۔ جسٹس شوکت عزیز کے اس فیصلے کو قوم نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے بلکہ اسے جدید میڈیا کو لگام دینے کے لیے مثالی فیصلہ بھی قرار دے رہی ہے۔ رمضان کے ماہ مبارک میں ان پروگرامز سے لوگوں کا وقت ضائع ہوجایا کرتا تھا۔ ایسے پروگرامز میں لوگوں کی دلچسپی کی بڑی وجہ انعام اور مختلف تحائف حاصل کرنا ہوا کرتا تھا تاہم ان انعامات میں عمرہ اور حج کے ٹکٹس بھی دیے جاتے تھے جبکہ ضرورت مندوں کی مدد بھی کی جاتی تھی۔ یہ سب اسلامی ملک کی تعریف کے بجائے تنقید کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ان پروگرامز کی شروعات مشہور اینکر ، نعت خواں اور سیاسی شخصیت عامر لیاقت حسین نے جنگ گروپ سے تعلق رکھنے والے چینل جیو سے کی تھی بعد میں اس دوڑ میں اے آر وائی اور دیگر ٹی وی بھی شامل ہوگئے تھے ۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت سے اس تجزیہ کار نے محض معلومات کے لیے یہ دریافت کیا کہ رمضان ٹرانسمیشن کے ان قابل اعتراض پروگرام کی ایک ماہ میں کتنی آمدنی ہو جایا کرتی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ انعام گھر سے کم و بیش 30 کروڑ روپے انکم ہوا کرتی تھی جبکہ تقریباً 5 سو افراد کو عارضی روزگار بھی ملا کرتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقریباً ایک سو افراد کو ہم عمرے کی ادائیگی کے لیے جہاز ٹکٹ بھی دیتے تھے‘ اس کے علاوہ مخیر حضرات اور این جی اووز کے ذریعے 5 سو افراد کی مالی مدد بھی جاتی تھی‘ یقیناً اللہ تعالی ضرورت مندوں کی کسی اور ذریعے سے مدد کردے گا لیکن عدالت کے اس بڑے فیصلے سے سحر اور افطار کے اوقات میں لوگ نہ تو اشتہارات دیکھ کر وقت کا ضیاع کریں گے‘ نہ ہی اپنے اذہان عبادت کے بجائے فضولیات کی طرف لے جاسکیں گے لیکن دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ارب پتی چینل مالکان قبول بھی کرسکیں گے یا اس کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے ؟