نیب کا نیا الزام، فائدہ نواز شریف کا

359

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھارت کو 4ارب 90کروڑ ڈالر بھجوانے کا الزام سامنے آنے پر ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ بدھ کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں طلب کر کے ان سے تفتیش کا مطالبہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف پر دشمن ملک کو پیسے بھیجنے کا الزام بہت سنگین ہے۔ انہوں نے نیب کا قانون بدلنے اور نیب کے چیئرمین کے لیے ریٹائرڈ جج جاوید اقبال کا نام بھیجنے پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہ الزام غلط ہے تو اس سے نیب کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی جس کے بارے میں نواز شریف ، ان کے تمام حواری اور ن لیگ کی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ شریف خاندان کو خصوصی طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی ساکھ کا تعلق ہے تو وہ پہلے ہی مجروح ہوچکی ہے کیوں کہ عدالت عظمیٰ ان کو نا اہل قرار دے چکی ہے۔ لیکن اگر نیب کا یہ نیا الزام غلط ثابت ہوا تو نیب کے تمام اقدامات مشکوک ہو جائیں گے۔ نیب کے چیئرمین کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر یہ تحقیقات کی جارہی ہے۔ لیکن کون سی میڈیا رپورٹس؟ بھارت کو تقریباً 5کروڑ ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائے گئے اور مبینہ طور پر اس کا ذکر عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں ہے۔ یہ رپورٹ 2016ء میں سامنے آئی تھی۔ اس وقت کوئی کسی تحقیقات کیوں نہیں کی گئی اور مذکورہ میڈیا رپورٹ کی حیثیت کیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ خود ورلڈ بینک اس کی تردید کرچکا ہے کہ رپورٹ میں کسی کا نام نہیں دیا گیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت جو حضرات ہجرت کر کے پاکستان آئے انہوں نے کچھ رقوم اپنے عزیزوں کو بھارت بھجوائیں اور سندھ سے جو ہندو بھارت گئے انہوں نے بھی رقوم کا تبادلہ کیا۔ یہ سب کچھ نواز شریف کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ اگر منی لانڈرنگ ہوئی ہے تو پہلے اس کی جامع تحقیقات کی جانی چاہیے تھی تب الزامات پر مبنی پریس ریلیز جاری کی جاتی۔ لیکن کہیں سے اشارہ پاتے ہی ایک الزام کو عام کردیا گیا۔ مبصرین نے فوراً ہی اپنے تبصرے شروع کردیے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی تاجر جندال کی آمد سے تانے بانے ملادیے کہ ان کی آمد بلاوجہ تو نہیں تھی اور یہ لین دین کا معاملہ تھا۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی بھارت کو فائدہ اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مذمت میں بیانات دینے شروع کردیے۔ گویا تحقیقات سے پہلے ہی ایک اختلافی موضوع ہاتھ لگ گیا۔ اس کی ذمے داری نواز شریف پر بھی عاید ہوتی ہے کہ انہوں نے بھارت نوازی کا تاثر قائم کیا اور بطور وزیر اعظم پاکستان انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے تو بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ ملا ہے۔ ان کے اس بیان پر بڑی لے دے ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران میں یہ بات کہتے تو دیکھتے کہ کتنے ووٹ ملتے ہیں۔ ان کی پیش رو بے نظیر بھٹو نے بھی قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں مدد نہ کرتی تو بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا، وہی بھارت جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کردیے۔ بے نظیر حکومت پر یہ الزام بھی لگا کہ اس نے آزاد خالصتان کی مہم چلانے والے سکھوں کے نام، پتے اندرا گاندھی حکومت کو فراہم کردیے۔ جس سے سکھوں کی علیحدگی کی مہم کو نقصان پہنچا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت پہلے دن سے پاکستان کا کھلا دشمن ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن پاکستان کے کئی حکمران اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ اب اگر نیب کا لگایا ہوا الزام پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا تو ایسے میں کیا چیئرمین نیب معافی مانگ کر مستعفی ہو جائیں گے؟ نواز شریف جس عالم سے گزر رہے ہیں اس میں ایک نیا الزام ان کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ الزام غلط ثابت ہونے پر ان کی کچھ ساکھ بحال ہو جائے گی اور سمجھا جائے گا کہ نیب کے دیگر الزامات بھی غلط ہیں ۔ اس عرصے میں میاں نواز شریف کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ گیا اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس الزام پر یقین کر بیٹھے ہیں کہ ضرور ایسا ہی ہوا ہوگا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔ لیکن خود حکومت اور قومی اسمبلی کی مدت چند دن کی رہ گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ 20 دن باقی ہیں چنانچہ قومی اسمبلی میں کسی قسم کی کمیٹی بنانے پر اختلاف رائے سامنے آیا ہے۔ تحریک انصاف کے اسد عمر نے تو صاف کہہ دیا کہ کمیٹی نہیں بننی چاہیے البتہ پیپلز پارٹی یہ کہہ کر کترا کے نکل گئی کہ مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔ شاہد خاقان نے اس الزام کو الیکشن سے قبل دھاندلی قرار دیا ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر الزام ثابت نہ ہوا تو الیکشن میں اس کا فائدہ ن لیگ کو ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اقدامات سے نواز شریف کی عوامی مقبولیت بڑھی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ مطالبہ مناسب ہے کہ چیئرمین نیب ایوان کو بتائیں کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہیں ۔ ایوان کو نہ سہی میڈیا ہی کو بتائیں جس کی کسی مبینہ رپورٹ پر یہ الزام عاید کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے یہ رقم دبئی بھجوائی گئی اور وہاں سے بھارت گئی جس سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ ن لیگ کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یہ سوال اٹھا دیا کہ چیئرمین نیب بتائیں مذکورہ اعلان پر ان سے کس نے دستخط کروائے اور یہ نامناسب کام کروایا۔ بین السطور انہوں نے خلائی مخلوق کی طرف اشارہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب سے یہ کام کسی اور نے لیا ہے۔ نیب چیئرمین نے تقریباً 5ارب ڈالر نواز شریف کے ذریعے بھارت بھجوانے کا الزام لگایاہے اور میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیا ہے۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبار میں یکم جنوری 2018ء کو ایک کالم شائع ہوا جس کی بنیاد پر نیب نے 8مئی کو تحقیقات کرنے کی پریس ریلیز جاری کردی۔ جسٹس جاوید اقبال خاصے تجربہ کار شخص ہیں ۔ کیا دنیا میں کہیں بھی کسی اخباری کالم کی بنیاد پر اتنا بڑا الزام لگا کر تحقیقات کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بہرحال چیئرمین نیب سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کا ازالہ بھی انہی کو کرنا ہوگا۔ غلطی پر معافی مانگ لینے سے انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ یہ کام تو خود نواز شریف کو بھی بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔