فرانسیسی دانشوروں کی ناپاک جسارت

293

فرانسیسی صدر عمانویل ماکرون نے قرآن کریم کی چند آیات حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔فرانس کے سابق صدر اور وزرائے اعظم سمیت 300دانشوروں نے ایک درخواست پر دستخط کیے ،جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان آیات کو حذف کیا جائے جن میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانس کے اس مذموم مطالبے کو انتہائی گھٹیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی ممالک کی اسلام دشمنی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں ترک صدر کے علاوہ کسی ملک کے سربراہ کو اس مطالبے پر طیش نہیں آیا۔ قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اورمسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس کا ایک ایک حرف سچائی پر مبنی ہے ۔فرانس کا مطالبہ جہاں اپنی ذات میں ایک گری ہوئی حرکت ہے وہاں امت مسلمہ کے مسلم عقیدے پر ایک کاری ضرب بھی ہے ۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغرب کی اس ہرزہ سرائی کاموجب خود مسلمان ہیں۔امت تو قرآن سے دور ہے ہی لیکن اس کے حکمران اپنے طرز عمل سے قرآن کے اس حکم کو جھٹلارہے ہیں۔قرآن پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ یہود ونصاریٰ ہرگز تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ،لیکن پھر بھی ہم امریکا اور اسرائیل کی جانب دوستی کے لیے ہاتھ پھیلائے جارہے ہیں ۔اس معاملے میں سب سے زیادہ افسوسناک کردار چند عرب ممالک حرمین شریفین سے نسبت کی وجہ سے سعودی عرب کوعالم اسلام میں ایک لیڈر کی حیثیت حاصل ہے ۔لیکن اب عرب ممالک کا یہ حال ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں ۔گزشتہ دنوں اسرائیلی سفیر کا بیان سامنے آیا ،جس میں اس نے سعودی ولی عہد کو حلیف قرار دیا ۔اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ درپردہ بہت سے عرب ممالک سے ہمارے گہرے مراسم ہیں، ان کے نام نہیں بتائے جاسکتے کیوں کہ انہوں نے صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے ، لیکن سعودی عرب کا قضیہ فلسطین پر جو موقف سامنے آیا ہے ،اسے ملحوظ رکھ کر ان باتوں کوحقیقت تسلیم کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہے ۔اس موقع پر ترکی کا کردار قابل تحسین ہے کہ ایسے وقت میں جب یورپی یونین میں شمولیت اس کا سب سے اہم ہدف ہے اوریقینی طور پر اس میں بہت سی مصلحتیں بھی ہوں گی،اس سب کے باوجود ترک صدر نے ببانگ دہل مغرب کو اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے فرانس کے مطالبے کو گھٹیا قرار دیا،جو مسلمان حکمرانوں کے لیے قابل تقلید ہے۔ اسرائیل سے پینگیں بڑھانے والے مسلم ممالک بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت بنانے پر اپنی پالیسی ضرور واضح کریں ۔