خبردار جو کسی نے بھوکوں کو کھانا کھلایا تو

353

صاحبو! ایک ذرا فرق سے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں ہماری رائے وہی ہے جو اہل درد کی بیوی کے بارے میں ہے۔ بیوی ان تمام مصیبتوں میں شوہر کا ساتھ دیتی ہے جو کبھی پیدا نہ ہوتیں اگر وہ اس سے شادی نہ کرتا۔ سرمایہ داریت ان تمام مصیبتوں میں آپ کو تنہا چھوڑ دیتی ہے جو کبھی پیدا نہ ہوتیں اگر آپ اسے اختیار نہ کرتے۔ اس خانہ خراب نظام سے حاصل ہونے والی خوشی اور غم کا تناسب ’’عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم روئیے‘‘ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت سے متعلق کچھ عرض کردیں۔ سرمایہ دارانہ نظام دین کے زندگی سے جدا ہونے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کی رو سے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ آزادیوں Freedoms کی حفاظت کرے۔ وہ آزادیاں یہ ہیں۔ عقیدے کی آزادی، رائے کی آزادی، شخصی آزادی اور ملکیت کی آزادی۔ ملکیت کی آزادی سے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام یا فری مارکیٹ اکانومی کا نظریہ وجود میں آیا جس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں حکومت کا کوئی کنٹرول یا عمل دخل نہیں ہوتا۔ خواہ سرمایہ دار کتنا ہی اندھیر مچائیں کتنا ہی عوام کو لوٹیں۔ سرمایہ داروں پر ہر قسم کی پابندیاں، رکاوٹیں اور ضابطے ختم کرکے انہیں ہر قسم کی من مانی کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹ سکیں۔ یہ یہودی بینکاروں اور سرمایہ داروں کا پھیلایا ہوا وہ پھندا ہے جس کا مقصد جائز ناجائز طریقے سے منافع سمیٹنا ہے۔ خواہ یہ منافع بچوں کا دس روپے مالیت کا دلیہ سو روپے میں بیچ کر ملے یا ناجائز کمیشن سے ٹیکس چرا کریا کرپشن کرکے۔ یہ نظام چند سرمایہ داروں کے دنیا بھر کی دولت سمیٹ لینے کا ہتھیار ہے۔ اس نظام میں لحاظ مروت اور انسانی ہمدردی کے لیے جگہ نہیں۔ انسانی حقوق کی بات محض آرائشی بیان اور مسخرانہ ہنر مندی ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے کشف میں ایک قوم کو دیکھا جو بڑے سائز کی ایک مکھی کے آگے سجدہ کررہی ہے۔ وہ مکھی ہر وقت اپنی دم ہلاتی رہتی ہے۔ انہوں نے خیال کیا یہ قوم مشرک ہے۔ غیب سے آواز آئی کہ یہ قوم مشرک نہیں ہے وہ اس مکھی کو خدا نہیں مانتی بلکہ قبلہ تصور کرتی ہے۔ سرمایہ داریت یا فری مارکیٹ اکانومی جس مکھی کو قبلہ تصور کرتی ہے اس کا خدا سرمایہ ہے۔ سرمایہ داریت فطرت صداقت حسن اور خدا کے پوشیدہ خزانوں سے بھری دنیا کو سمجھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ وہ محض دولت کمانے کی کوشش میں شیطان سے بڑھ کر دنیا اجاڑنے کے درپے ہے۔
بس میرا ذکر آتے ہی محفل اجڑ گئی
شیطاں کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے
سرمایہ داریت نے اپنے علم برداروں کو بھیڑیوں اور لومڑیوں میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان کی خصوصیت اس کی فیض رسانی ہے۔ اس نظام میں یہ نقصان کا سودا اور عیب ہے۔ فیاضی اور مہربانی کا اس کوچے میں گزر نہیں۔ ایک مجبور اور بے کس نے اس نظریے پر عمل پیرا ایک سیٹھ سے رورو کر التجا کی، اپنی مجبوریاں بتائیں، کمر سے لگا پیٹ دکھایا لیکن اس ظالم کا پتھر موم نہ ہوا۔ جب غریب کی آہ و زاری زیادہ بڑھی تو سیٹھ نے مزے لیتے ہوئے کہا: ’’میری ایک آنکھ پتھر کی ہے۔ میں اس شرط پر تمہاری مدد کرسکتا ہوں کہ بتاؤ میری کون سی آنکھ پتھر کی ہے؟‘‘ غریب نے چھوٹتے ہی جواب دیا: ’’دائیں آنکھ‘‘ سیٹھ نے حیرانی سے پوچھا: ’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میری دائیں آنکھ پتھر کی ہے!‘‘ غریب نے جواب دیا: ’’جناب اس آنکھ میں کچھ انسانیت پائی جاتی ہے‘‘۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے اصل قصے کی طرف جس سے پتا چلتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانیت تلاشنا اندھیرے کمرے میں کالی بلی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ کئی برس پہلے امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے ایک نوے سالہ شخص کو گرفتار کیا تھا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ بھوکے افراد کو کھانا کھلا رہا تھا۔ آرنلڈ نامی یہ شخص ایک پارک میں بھوکے اور غریب لوگوں کو کھانا کھلارہا تھا کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ جس طرح مجرموں کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دیا جاتا ہے اسی طرح پولیس نے اسے بھی حکم دیا کہ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ فوراً نیچے رکھ دے۔ اس امریکی ریاست میں حال ہی میں یہ قانون منظور کیا گیا ہے کہ غرباء اور مساکین کو کھانا کھلانا ناقابل معافی جرم ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار امریکا میں یہ اس نظام کا اپنے چاہنے والوں سے سلوک ہے۔ جواز یہ تراشا گیا کہ ’’شہری خیراتی اداروں اور مخیر افراد پر انحصار کرنے کے بجائے خود کماکر کھانے کی طرف متوجہ ہوں‘‘۔ اس گلاب باڑی کی حقیقت یہ ہے کہ مقامی محنت کشوں کو اتنی معمولی اور حقیر اجرت دی جاتی ہے کہ وہ خیراتی اداروں میں کھانا کھانے کی ذلت گوارا کرلیتے ہیں لیکن اس اجرت پر کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ ان استیصالی اداروں نے حکومت پر زور ڈالا۔ ان کے ایماء پر یہ قانون منظور ہوا۔ جس کے بعد مزدوروں کو جب کہیں کھانے کو نہیں ملے گا بھوکوں مریں گے تو کم اجرت پر بھی کام پر دوڑیں گے۔
یہ ہے اس نظام کی اس کے مرکز امریکا میں کامیابی۔ پانچ کروڑ امریکی خوراک کے لیے خیرات پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکا پر مسلط اس استیصالی نظام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شکاگو کے مکڈونلڈ میں 8.25 ڈالر فی گھنٹہ پر کام کرنے والے محنت کش کو اپنے مالک کی سالانہ آمدنی 87.5 لاکھ ڈالر کمانے کے لیے ایک صدی تک مسلسل دن رات کام کرنا پڑے گا۔ جب کہ دوسری طرف دس فی صد امیر ترین امریکی پہلے سے کہیں زیادہ دولت مند ہوچکے ہیں جو ملک کی ساٹھ فی صد دولت کے مالک ہیں۔ اس استیصالی اور بے انصافی ہی کا نتیجہ ہے کہ امریکا میں جرائم بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ کل آبادی میں سزا یافتہ قیدیوں کی شرح کے لحاظ سے امریکا دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ہر سو میں سے ایک امریکی جیل میں ہے اور جیلوں میں مزید قیدیوں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔
امریکا میں اور دنیا بھر میں اس نظام کا مستقبل تاریک ہے لیکن ہم ہیں کہ امریکا کی چاہت میں اس نظام کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں۔ 1988ء میں بے نظیر نے اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں کہا تھا: ’’ملک میں نظریاتی سیاست کا دور پیچھے چلاگیا ۔۔۔ اب فری مارکیٹ اکانومی کا دور ہے‘‘۔ پرویز مشرف ہو یا زرداری بے نظیر ہو یا نوازشریف یا عمران خان سب فری مارکیٹ اکانومی کی بات کرتے ہیں اسی کو امرت دھارا سمجھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کل ہمارے ہاں بھی حکومت یہ کہے ’’خبردار جو کسی نے بھوکوں کو کھاناکھلایا تو‘‘۔