ریاستی اداروں سے دشمنی

271

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں، انہیں دشمن نہ سمجھیں، چیف جسٹس نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک ہی ہوگی لیکن یہ واضح نہیں کہ ریاستی اداروں سے ان کا کیا مطلب ہے اور انہیں کون اور کیوں دشمن سمجھ رہاہے۔ جناب چیف جسٹس نے یہ بات اپنے دورہ کوئٹہ میں کی ہے اس وقت کچھ سیاستدان عدلیہ اور فوج کے بارے میں تلخ بیانات دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب سے نا اہل قرار دیے گئے ہیں وہ نہ صرف عدالت عظمیٰ سے روٹھے ہوئے ہیں بلکہ بار بار خلائی مخلوق کی بات کررہے ہیں جس سے ان کا اشارہ فوج کی طرف ہے۔ پہلے فوج کا نام لیے بغیر اسے اسٹیبلشمنٹ کہہ دیاجاتاتھا یا پھر فرشتے کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ اب میاں صاحب نے اسے خلائی مخلوق قراردیاہے۔ ممکن ہے کہ میاں ثاقب نثار کا اشارہ انہی ریاستی اداروں کی طرف ہو جن کو کچھ عناصر دشمن قرار دے رہے ہیں لیکن یہ خیال محل نظر ہے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں۔ اگر یہ بات نظام عدل، عدلیہ اور فوج کے بارے میں کہی گئی ہے تو اس میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن پاکستان میں عدلیہ اور فوج کی تاریخ خوشگوار نہیں ہے ۔آج بھی کئی ریاستی ادارے من مانی میں مصروف ہیں اور عدالتیں اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سے قطع نظر اس وقت میاں ثاقب نثار بہت سے ایسے کام کررہے ہیں جو حکومتوں کے کرنے کے تھے۔ اگر حکومتیں اپنے کام پر توجہ دیتیں تو چیف جسٹس کو مداخلت نہ کرنا پڑتی لیکن ان کی مداخلت پر چڑنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنام دیکھیں انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیں لیکن انتظامیہ اپنا کام کرکہاں رہی ہے۔