امریکی سفارت کاروں پر جوابی پابندی

246

پاکستان نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی سفارت کاروں پر پابندی عاید کردی ہے۔ یہ اقدام امریکا میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر پابندی کے جواب میں کیا گیا ہے حالاں کہ امریکی سفارت کار پاکستان میں جس طرح دندناتے پھرتے ہیں، پاکستان کو یہ قدم پہلے ہی اٹھا لینا چاہیے تھا۔ امریکی سفارت کار پاکستان کی سڑکوں پر قتل کرتے پھر رہے ہیں اور سفارتی استثنا کی آڑ میں صاف بچ نکلتے ہیں۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس تو سفارت کار بھی نہیں تھا اور اس نے سر عام قتل کیا تھا لیکن امریکی حکومت اسے بھی سفارتی استثنا دلوانے پر مصرتھی۔ وہ جا کر امریکی سفارت خانے میں چھپ گیا تھا اور پاکستانی ایجنسیوں نے سوال پوچھنے پر کہا تھا کہ وہ کب تک چھپا رہے گا، جب باہر نکلے گا تو پکڑ لیں گے۔ لیکن یہ حسرت ہی رہی۔ اس کو بچانے کے لیے سفارت خانے سے آنے والی گاڑی نے بھی غلط رخ سے آ کر ایک اور پاکستانی کو کچل دیا۔ پاکستانی حکمرانوں نے ریمنڈ ڈیوس کا سودا کرلیا اور اس سے پہلے کہ خبر سامنے آئے وہ پاکستانی حدود پار کر چکاتھا۔ یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ ان مقتولوں کی دیت کس نے دی تھی کیوں کہ امریکا نے تو صاف کہہ دیا کہ اس نے دیت ادا نہیں کی۔ لیکن دیت کا یہ مطلب تو نہیں کہ امریکی سفارت کار اور بلیک واٹر کے جاسوس دندناتے پھریں ، قتل کر کے معاوضہ ادا کریں اور نکل جائیں۔ ایسی ہی کوشش امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کے لیے کی جارہی ہے۔ پولیس نے اسے موقع پر گرفتار کیا نہ ہی شراب میں دھت اس شخص کا طبی معائنہ کیا گیا جس سے ثابت ہوتا کہ وہ نشے میں ڈرائیونگ کررہاتھا اور یہ امریکا میں بھی جرم ہے۔ اطلاعات کے مطابق بگرام، افغانستان میں امریکی طیارہ کھڑا ہے جو کرنل جوزف کولے جانے آیا تھا۔ حکمران تو ابھی شش و پنج میں ہیں تاہم عدالت عالیہ اسلام آبادنے کہا ہے کہ قاتل امریکی سفارت کار کو مکمل استثنا حاصل نہیں اور حکومت اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ دو ہفتے میں کرلے۔ لیکن دو ہفتے کی مہلت کیوں؟ اگر کرنل جوزف کسی بھی بہانے سے بچ نکلا تو پوری دنیا یہ سمجھ بیٹھے گی کہ پاکستانیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں اور جو چاہے انہیں روند ڈالے، قتل کردے۔ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کی جان کا تحفظ کرنے کی اہل نہیں ۔ پاکستانی شہری تو ویسے ہی ایک دوسرے کی جان لیتے رہتے ہیں لیکن کوئی غیر ملکی طاقت کے نشے میں قتل کرتا پھرے یہ پوری قوم کے لیے باعث شرم ہے۔ ابھی تو بھارتی جاسوس کلبھوشن ہی حکمرانوں کے گلے میں پھنسا ہوا ہے اور معاملے کو اتنا طول دیا گیا ہے کہ بھارت عالمی ادارے میں جاپہنچا۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کلھبوشن کا نام تک نہیں لیا بلکہ اب تک ان کے منہ سے یہ نام نہیں نکلا۔ بہرحال پاکستان میں امریکی سفارت کاروں پر پابندی لگنے سے، ایک اخبار کے مطابق امریکی سفارت کاروں کا ’’ و ائسرائے اسٹیٹس‘‘ ختم ہوگیا۔ حقیقت یہی ہے کہ براعظم پاک ہند پر برطانوی راج کے دوران میں جس طرح معمولی برطانوی اہلکاربھی خود کو ملک معظم یا ملکہ برطانیہ کا براہ راست نمائندہ سمجھ کر من مانی کرتے پھرتے تھے، برطانیہ کے زوال کے بعد امریکا نے یہ منصب سنبھال لیا۔ پاکستان سمیت تمام ترقی پزیر ممالک گوری چمڑی سے بری طرح مرعوب ہیں جس کی وجہ سے امریکیوں کی رعونت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مسلم ممالک میں بھی امریکیوں کو ان داتا سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی امریکی پاکستان میں داخل ہو تو ایسا سلوک ہوتا ہے جیسے آقاؤں سے کیاجاتاہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بڑی سے بڑی شخصیت امریکا جائے تو ائر پورٹ پر اس کے کپڑے ، جوتے تک اتروالیے جاتے ہیں۔ خواہ وہ حاضر سروس جنرل ہی کیوں نہ ہو۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گو کہ نجی دورے پر امریکا گئے تھے مگر ان کے بھی کپڑے اتروائے گئے اور وہ اس اعزاز پر خوش تھے۔ عدالت عالیہ اسلام آباد نے امریکی سفارتکاروں پر جو پابندیاں عاید کی ہیں ان کے مطابق وہ اپنی نقل و حرکت اور رہائش کی تبدیلی کے لیے پیشگی اجازت لینے کے پابند ہوں گے۔ ایک سے زاید پاسپورٹ نہیں رکھ سکیں گے، گاڑیوں پر کالے شیشے چڑھائیں گے نہ جعلی نمبر پلیٹ لگائیں گے، ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ سفارتخانے کی نمبر پلیٹ لگائیں ۔ ویزے کی مدت سے زیادہ قیام پر پابندی ، تمام ہوائی اڈوں پر سامان کی چیکنگ ہوگی، بغیر اجازت اپنی قیام گاہوں اور سیف ہاؤسز پر ریڈیو مواصلاتی آلات نہیں لگائیں گے۔ بایو میٹرک تصدیق کے بغیر فون سمز جاری نہیں کی جائیں گی۔ ان پابندیوں کا اطلاق فوری طورپر ہوگیا جس کی اطلاع دفترخارجہ نے امریکی سفارتخانے کو دیدی ہے۔ یہ کام تو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا ۔ جس طرح امریکا میں معزز پاکستانیوں اور اعلیٰ حکام کی تلاشی لی جاتی ہے اسی طرح امریکیوں کی بھی لی جانی چاہیے تھی۔ ا ب تو یہ جوابی اقدام ہے۔ اگر امریکی صدر پاکستانی سفارتکاروں پر پابندی عاید نہ کرتے تو پاکستان میں بھی سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک پاکستانی عتیق بیگ کا قاتل کرنل جوزف کب گرفتار ہوتاہے۔ اس سانحہ کو 36دن گزر چکے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اندرون خانہ ضرور سودے بازی ہورہی ہوگی اور شاید ایک بار پھر پاکستانی نوجوان کی لاش کا سودا ہوجائے ۔ سفارتی استثنا کے نام پر کسی کو بھی قتل عام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستانی وزارت خارجہ ہمت کرکے ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھے کہ ان کے ملک میں اگر کوئی سفارتکار نشے میں گاری چلاتے ہوئے غلط رخ سے آکر کسی کو کچل دے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟