ووٹ کو عزت دو یا قانون کو اہمیت دو؟

253

موجودہ جمہوری حکومت کی مدت پوری ہونے کو ہے اس کے ساتھ ہی نگراں حکومت سامنے آجائے گی۔ اس لیے اس سوال کی بازگشت عام ہے کہ نگراں وزیراعظم کون ہوگا؟
ملک کی 70 سال 8 ماہ کی تاریخ میں پہلی بار مسلسل جمہوریت کا دوسرا دور مکمل ہونے کو ہے۔ سیاسی اذہان کے لوگ صرف اسی وجہ سے خوش ہیں کہ ملک میں جمہوریت چل رہی ہے۔ جمہوریت کے دل داداؤں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ: ’’جمہور چل رہی ہے یا نہیں‘‘۔ جمہوریت کے اصل چمپئن کون ہیں؟ اگر اس سوال پر غور کیا جائے تو دو طرح کے سیاسی عناصر سامنے آتے ہیں۔ ایک تو وہ جو بڑی جماعتوں کے رہنما ہیں اور ہمیشہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو آمریت کو بھی وقت کی ضرورت جان کر گلے لگا لیا کرتے ہیں اور خود بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مذکورہ دونوں سیاسی گروپوں سے عام افراد کا کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا مگر یہ دونوں ہی ہمیشہ عوام کا سہارا لیکر سیاست کرتے اور اقتدار کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ملک کا نظام سنبھالنے کے بعد جمہوریت کے چمپئن نہ صرف اپنی جماعت بلکہ حکومتی نظام میں بھی کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں نظر آتے۔ انہیں جمہوریت کی اچھائیاں صرف اس وقت نظر آتی ہیں جب یہ خود حکومت میں نہیں ہوتے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ جمہوریت پسندوں کو صرف اس وقت تک جمہوریت کی طلب ہوتی ہے جب تک انہیں اقتدار نہ مل جائے۔ ملک میں یہ منظر پہلی بار لوگ دیکھ رہے ہیں کہ جمہوریت پرست میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی اپنی ہی پارٹی کی جمہوری حکومت کے باوجود مطمئن نہیں ہیں۔ اسی لیے اپنی بادشاہت کے مستقبل کی فکر میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں۔ ان کے اس عمل سے ان کی عوام سے محبت سے زیادہ خود غرضی بھی عیاں ہورہی ہے۔ مگر انہیں یقین ہے کہ جن لوگوں کو وہ برسوں سے بیوقوف بنارہے ہیں ایک بار پھر جھانسا دے کر کسی طرح اقتدار میں آجائیں گے۔
اس بار میاں نواز شریف کو اپنی جماعت مسلم لیگ کے انتخابات میں کامیاب ہونے سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کے ساتھ ہی وہ ایسی قانون سازی کروائیں جس کے تحت وہ عوام اور ملک کے خلاف کچھ بھی کرلیں ان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔ اور وہ مسلسل یا وقفے سے اقتدار کے مزے لیتے رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے ایسا بل منظور کروالیں جس کے تحت کسی بھی رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے خلاف کسی بھی قسم کی شکایت کو قابل قبول تصور نہیں کیا جائے گا اس مقصد کے لیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ قانون بنا دیا جائے گا۔ مگر میری خواہش اور دعا ہے کہ اللہ ایسے دن کبھی نہیں لائے، آمین۔
بات ہورہی تھی مسلسل جمہوریت کے دوسرے پانچ سالہ دور کی۔ جس میں حکمراں جماعت کے رہنما کا احتساب ہوگیا۔ یہ احتساب جمہوریت نے نہیں کیا بلکہ جمہوری نظام کے طاقتور عدالتی نظام کی وجہ سے ہوا۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ اصل طاقت قانون کی ہے۔ اگر قوانین پر سختی سے عمل ہو تو بڑے بڑے طرم خان کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ جب قانون پر عمل ہوگا تو ملک و قوم کا وقار بلند ہوگا اور ووٹ کو بھی عزت مل جائے گی۔ ورنہ ماضی میں ووٹ کے نام پر ’’ٹھپے‘‘ لگنے کی مثالیں عام ہیں۔ یہ ٹھپے مار ووٹ اس طرح کاسٹ ہوجایا کرتے تھے کہ ووٹر کو خبر تک نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے ووٹ کو عزت دینے سے پہلے ووٹ کو قانون کے سخت دائرے میں لانا ہوگا۔ یہ کام نگراں حکومت کو کرنا ہے۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نگراں وزیراعظم کون ہوگا؟ نگراں وزیر اعظم کے لیے نام کا فیصلہ حکومت اور حزب اختلاف کے مشوروں سے کیا جاتا ہے۔ چوں کہ نیب کے چیئرمین کا تقرر بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ نگراں وزیراعظم بھی چیئرمین نیب کی طرح کی قانون پر سختی سے عمل کرانے والی ایماندار ور دیانتدار شخصیت ہوگی۔ قوم کو اطمینان ہے کہ اب اہم عہدوں پر تعینات کی جانے والی شخصیات اگر لوگوں کی خواہشات کے مطابق سخت ایماندار نہ ہو تو اسے ایسا بنا دیا جاتا ہے۔ یہ کام کوئی ’’خلائی مخلوق‘‘ نہیں کرتی بلکہ اللہ اپنے نظام کے ذریعے کرا دیتا ہے۔
اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے تاہم حکمراں جماعت سابق صدر پرویز مشرف کے عشرت حسین سے تعلقات کی وجہ سے عشرت حسین کے نام پر اعتراض کردیا ہے۔ ایک اہم شخصیت کا نام بھی بعض حلقے نگراں وزیراعظم کے لیے دے رہے ہیں۔ یہ نام راحیل شریف ہے۔ توقع ہے کہ نام نہاد جمہوریت پسند عناصر اس نام کو بھی مسترد کردیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈصرز کس کے نام پر اتفاق کرتے ہیں جو آئندہ عام انتخابات شفاف منصفانہ اور آزادانہ کروا کر ووٹ کی عزت بڑھائے گا۔