محترمہ مریم نے لالہ موسیٰ سے پوچھا ہے: ’’میں Musclular Distrophy کی مریضہ ہوں، اس بیماری کے سبب میں زمین پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتی۔ کبھی کبھار کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتی ہوں تو ایک رکعت بھی مکمل نہیں ہوتی کہ بازووں کا اُوپری حصہ، کندھے اور گھٹنے جواب دے دیتے ہیں، کیوں کہ کرسی پر بیٹھ کر رکوع وسجود کے لیے جھکتے وقت سارا وزن متاثرہ حصے پر پڑتا ہے، ایسے میں کیا کروں؟۔ اونچی چارپائی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں لوگ کہتے ہیں کہ پاؤں زمین پر لگنے چاہییں، اگر میں زمین پر پاؤں لگاؤں تو اٹھنا دشوار ہوگا، کیوں کہ اونچی جگہ سے تو میں کسی طرح اٹھ پاتی ہوں، لیکن کم اونچی جگہ سے بالکل نہیں اٹھ پاتی۔ لیٹ کر نماز پڑھنے میں سمتِ قبلہ کا مسئلہ ہے کہ کمرے کی بناوٹ اور چارپائی اس طرح ہے کہ قبلہ کا رخ نہیں ہوتا۔ سردی اور گرمی کے موسم میں وضو اور غسل میں بہت دشواری ہوتی ہے اس کا کوئی حل بتائیں۔ میرا ارادہ حج کرنے کا ہے لیکن ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اگر دورانِ حج بیماری مزید بڑھنے کا اندیشہ ہوتو حج فرض نہیں، کیا مجھ پر حج فرض نہیں ہے؟، روزوں کا فدیہ کتنا ہے، گزشتہ سال چھ ہزار روپے دیا تھا، اس سال سات ہزار روپے دیا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘۔
آپ نے لکھا ہے: ’’کبھی کبھار کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتی ہوں تو ایک رکعت بھی مکمل نہیں ہوتی کہ بازوؤں کا اُوپری حصہ کندھے اور گھٹنے جواب دے دیتے ہیں، کرسی پر بیٹھ کر رکوع وسجود کے لیے جھکتے وقت سارا وزن متاثرہ حصے پر پڑتا ہے، ایسے میں کیا کروں؟‘‘۔ جواباً عرض ہے: معلوم ہوتا ہے کہ کرسی پر بیٹھنا آپ کے لیے تکلیف کا باعث نہیں ہے، بلکہ رکوع وسجود کے لیے جھکنا باعث تکلیف ہے، اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ آپ سر کو معمولی مقدار جھکا کر رکوع کریں اور سجدے کے لیے رکوع سے تھوڑا زیادہ سر جھکائیں، کیوں کہ آپ کی نماز اشارے کی ہے اور اشارے کے لیے سر کو جھکایا جاتا ہے، کندھوں اور کمر کو جھکانا ضروری نہیں ہے۔
آپ کا دوسرا سوال ہے: ’’اونچی چار پائی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں لوگ کہتے ہیں کہ پاؤں زمین پر لگنے چاہییں، اگر میں زمین پر پاؤں لگاؤں تو اٹھنا دشوار ہوگا، کیوں کہ اونچی جگہ سے تو میں کسی طرح اٹھ پاتی ہوں، لیکن نیچی ہائٹ کی وجہ سے بالکل نہیں اٹھ پاتی‘‘۔ جواباً عرض ہے: چارپائی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے معذور کے پاؤں کا زمین کو مَس کرنا ضروری نہیں ہے، جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھ کر سر کے اشارے سے رکوع وسجود ادا کریں۔
آپ کا تیسرا سوال ہے: ’’لیٹ کر نماز پڑھنے میں سَمت قبلہ کا مسئلہ ہے کہ کمرے کی بناوٹ اور چارپائی اس طرح ہے کہ قبلہ رخ نہیں ہوتا‘‘۔ جواباً عرض ہے: آپ کمرے کی بناوٹ اور چارپائی کے قبلہ رخ نہ ہونے کی فکر میں مبتلا نہ ہوں، آپ بیڈ کے طول یا عرض میں یا جیسے بھی ممکن ہو قبلہ رخ لیٹ جائیں اور اشارے سے نماز پڑھیں، یہ اس صورت میں ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھنا آپ کے لیے ممکن نہ ہو یا ناقابلِ برداشت تکلیف کا باعث ہو۔
آپ کا چوتھا سوال ہے: ’’سردی اور گرمی کے موسم میں وضو اور غسل میں بہت دشواری ہوتی ہے، اس کا کوئی حل بتادیں‘‘۔ جواباً عرض ہے: آپ نے اپنے سوال میں دشواری کا سبب واضح نہیں کیا کہ آیا آپ کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال تکلیف کا سبب ہے یا گرم پانی کا، اس کا حل تو یہ ہے کہ جس موسم میں آپ کے لیے جس طرح کے پانی (گرم یا سرد) کا استعمال قابلِ برداشت ہو، وہ استعمال کریں، جب تک آپ پانی استعمال کرسکتی ہیں، تیمم جائز نہیں ہے اور اگر آپ کے لیے پانی کا استعمال ہلاکت یا مرض کی شدت کا سبب ہو یا کوئی ایسی بیماری ہے جس میں ڈاکٹر نے آپ کو پانی کے استعمال سے مطلقاً منع کیا ہے، تو اس صورت میں آپ تیمم کرکے نماز پڑھ سکتی ہیں۔
آپ کا پانچواں سوال ہے: ’’میرا ارادہ حج کرنے کا ہے، لیکن ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اگر حج کے دوران بیماری مزید بڑھنے کا اندیشہ ہوتو حج فرض نہیں، کیا مجھ پر حج فرض نہیں ہے؟‘‘۔ جواباً عرض ہے: اگر آپ صحت کی حالت میں حج کی مالی استطاعت رکھتی تھیں اور آپ کو شوہر یا محرم کی رفاقت بھی حاصل تھی، لیکن آپ نے کوئی مانع نہ ہونے کے باوجود حج ادانہ کیا اور بعد میں آپ کو یہ مرض لاحق ہوگیا تو آپ پر اپنی طرف سے حجِ بدل کرانا لازم ہے۔ لیکن اگر آپ کو اسی مرض کی حالت میں مالی استطاعت نصیب ہوئی ہے، تو آپ پر اصلاً حج فرض نہیں ہے، کیوں کہ حج کی فرضیت کے لیے صحت مند ہونا شرائطِ وجوب میں سے ہے، اس صورت میں آپ پر حج بدل کرانا بھی لازم نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ اسی حالت میں حج پر جانا چاہتی ہیں، تو آپ طواف اور سعی وِیل چیئر پر کرسکتی ہیں، یہ وِیل چیئر آپ کے شوہر یا محرم بھی چلا سکتے ہیں اور کسی مزدورکو اجرت دے کر بھی یہ خدمت آپ لے سکتی ہیں، اسی طرح رمی جمرات اور دمِ تمتّع ودمِ قِران کے لیے بھی کسی کو اپنا وکیل بناسکتی ہیں۔ اگر آپ نے حجِ اِفراد کرنا ہے، تو آپ پر شکرانے کا دم واجب نہیں ہے۔ اگر آپ نے حج بدل کرالیا ہے، لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ صحت یاب ہوکر خود ارکانِ حج ادا کرنے کے قابل ہوجاتی ہیں اور بدستور استطاعت رکھتی ہیں، تو تشکِّر نعمت کے طور پر دوبارہ حج ادا کرلیں۔
آپ کا آخری سوال ہے: ’’روزوں کا فدیہ کتنا ہے، گزشتہ سال چھ ہزار روپے دیا تھا، اس سال سات ہزار روپے دیا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘۔ جواباً عرض ہے: اگر آپ بہت عمر رسیدہ اور ضعیف ہیں یا دائمی مریضہ ہیں کہ بظاہرصحت کی بحالی کا امکان نظر نہیں آتا، تو آپ پر اپنے روزوں کا فدیہ واجب ہے، اس کی مقدار ہر سال اشیاء کے نرخ کے حساب سے بتائی جاتی ہے اور گندم، جَو، کھجور، کشمش اور پنیر کی قیمتوں کے حساب سے رقم ہم میڈیا کے ذریعے بتاتے ہیں تاکہ لوگ اپنی مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرلیں، مال دار لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ کشمش، پنیر یا کھجور کے نصاب کے مطابق اپنے روزوں کا فدیہ ادا کریں، آپ ہر سال اپنے قریب کے کسی عالم یا امام وخطیب سے معلوم کروالیا کریں، بشرطیکہ وہ فقہی مسائل پر بصیرت رکھتے ہوں۔
مخدوم صدیقی صاحب نے کراچی پوچھا ہے: ’’ایک شخص صاحبِ نصاب ہے، وہ ہر سال مختلف مدارس، یتیم خانوں اور فلاحی اداروں کو اپنی زکوٰۃ دیتا ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ کسی مستحقِ زکوٰۃ کو تلاش کرے، پھر اس کو کچھ رقم گھر والوں کی ضروریات کے لیے دے اور اسے زکوٰۃ کی رقم سے حج پر بھیجے، کیا اس طرح اس کی زکوٰۃ اداہوجائے گی؟۔
جواباً عرض ہے: اگرچہ بیک وقت ایک ہی فقیر کو زکوٰۃ کی بہت بڑی رقم دینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے، لیکن اگر دیدی توادا ہوجائے گی، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اور ایک شخص کو (بیک وقت) 612.36 گرام چاندی (یعنی مقدارِ نصاب کے برابر) یا اس سے زاید دینا مکروہ ہے، اگر دے دیا تو جائز ہے (یعنی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی)، ’’ہدایہ‘‘ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، ص: 188)‘‘۔ علامہ برھان الدین مرغینانی نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ امام زُفَرکے نزدیک کسی ایک مستحق کو بیک وقت اتنی رقم دینا جائز نہیں ہے (کہ وہ خود غنی اور صاحبِ نصاب ہوجائے، عدمِ جواز کے قول کا تقاضا یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی)، (الھدایہ، جلد2، ص:78، مکتبۃ البشریٰ)‘‘۔ علامہ محمد بن محمود بابرتی نے ’’عنایہ‘‘ شرح ہدایہ میں اس پر مدلَّل اور مُفصَّل بحث کی ہے، لیکن صاحبِ ہدایہ کا مختار قول یہی ہے کہ زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی حکمتوں میں لوگوں کو حج اور عمرے کرانا نہیں ہے، بلکہ مستحقین کی حاجات اصلیہ کو پورا کرنا ہے،
البتہ اگر کوئی فقیر ومسکین بے گھر ہے اورکوئی صاحبِ زکوٰۃ مکان خرید کر اسے اس کا مالک بناتا ہے، تو اس مکان کی قیمت غالب صورتوں میں 36ء612 گرام چاندی یا بعض صورتوں میں 48ء87 گرام سونے کی بازاری قیمت سے زاید ہوگی، لیکن چوں کہ مکان حاجتِ اصلیہ ہے، اس لیے زکوٰۃ بلا کراہت ادا ہوجائے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنے کثیر مال سے نوازا ہے اور آپ کو کسی صالح مستحقِ زکوٰۃ شخص کو حج کرانے کا بھی شوق ہے، تو اپنے اصل مال میں سے یہ سعادت حاصل کیجیے، اس کو اس رقم کا مالک بنا دیجیے تاکہ وہ صاحبِ استطاعت ہوکر بطور فرض حج ادا کرے۔ لیکن اگر آپ زکوٰۃ کی رقم سے کسی شرعی فقیر کو حج کرانا ہی چاہتے ہیں تو اتنی رقم کا اسے مالک بنادیں۔ اس شخص کی مرضی ہے کہ وہ اس رقم سے حج کرے یا اپنی کوئی اور ضرورت پوری کرے، آپ اسے حج ادا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے، اگر آپ نے رقم اس کی ملکیت میں نہیں دی اور حج کے اخراجات گورنمنٹ یا کسی پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزر کے حوالے کرکے اسے حج پر بھیج دیا، تو آپ کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ حج کرانے کا ثواب آپ کو مل جائے گا۔
ہمارے ہاں بعض لوگ زکوٰۃ تو پوری ادا نہیں کرتے، لیکن میلاد النبی ؐ کے جلسوں اور محافلِ نعت میں نام ونمود کے لیے عمرے کے ٹکٹ بانٹتے ہیں، بعض پیر صاحبان کو بھی مجمع اکٹھا کرنے کے لیے اس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ شاید ان کے تقویٰ وکردار میں وہ کشش نہیں رہی کہ ان ترغیبات کے بغیر لوگ اُن کی مجالس میں کھچے چلے آئیں۔ سید علی ہجویری داتا گنج بخش اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور دیگر اکابر اُمّت رحمہم اللہ تعالیٰ کے اَعراس اور دیگر مواقع پر عمرے کے ٹکٹ نہیں بٹتے، سیکڑوں سال بعد بھی ان کے علم، تقویٰ، اِخلاص ولِلّٰہیت اور روحانی فیوض وبرکات اور سعادات کے سبب لوگ کھچے چلے آتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج علم، تقویٰ اور اخلاص کا متبادل عمرے کے ٹکٹوں کو بنا لیا گیا ہے، اسی لیے دینی حمیّت والے لوگ کم ہی اس طرف آتے ہیں، ہم نے اکثر ایسے لوگ دیکھے ہیں جو شریعت پر عامل نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائے۔