چیف صاحب!مسئلہ صرف لوڈ شیڈنگ نہیں

302

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے کے الیکٹرک کو لوڈ شیڈنگ فوری طور پر بند کرنے اور 20 مئی تک لوڈ شیڈنگ کا شیڈول پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ میں موجود کے الیکٹرک کے سربراہ کی سرزنش کی کہ آپ کو لوڈ شیڈنگ کی اجازت کس نے دی۔ جواباً کے الیکٹرک کے سربراہ نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی اور اسی انداز میں پیش کی کہ گویا کے الیکٹرک کو ڈھائی تین سو میگا واٹ بجلی مل جائے تو لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کے الیکٹرک میڈیا حکومت اور اس کے مشیروں نے مل کر سارے مسائل کو چھپاکر رکھ دیا ہے۔ کے الیکٹرک کا اصل مسئلہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ تو اس کے غلط اقدامات اور معاہدے کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ کے الیکٹرک کو فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹس کے ذریعے بھی بجلی تیار کرنی تھی جو وہ نہیں کررہی۔ عدالت عظمیٰ میں اس پہلو کو اجاگر ہونا چاہیے تھا ۔ کے الیکٹرک کی بلنگ شفاف نہیں اوور بلنگ اور جعلی بلنگ کے ثبوت مل چکے۔ لیکن کے الیکٹرک کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکا صارفین سے اضافی بل وصول کرنے کے احکامات پر مشتمل ای میل بھی پکڑی جاچکی لیکن کسی اتھارٹی نے اس پر بات نہیں کی تانبے کے تار اتار کر کس کو فروخت کیے گئے اس کا حساب نہیں لیا گیا۔ کے الیکٹرک کن کن با اثر لوگوں کو مفت بجلی دے رہی ہے اس کا حساب نہیں لیا گیا۔ اس ادارے کی نجکاری اور معاہدے کو عوام سے خفیہ کیوں رکھا گیا ہے۔ ہزاروں ملازمین کو نکال دیا گیا اور ان کو نہ نکالنے کے بہانے بجلی کے نرخ بھی بڑھائے گئے۔ حال ہی میں زیراعظم کے سامنے کے الیکٹرک نے گیس کی عدم فراہمی کا ڈراما رچایا، اس ڈرامے میں بھی میڈیا نے بھرپور تعاون کیا اور وزیراعظم کراچی آکر کے الیکٹرک کو گیس کی اضافی فراہمی کا حکم دے کر چلے گئے نادہندہ ادارے کو اضافی گیس بھی ملنے لگی۔ اس کی قیمت بھی اہل کراچی ہی کو بھگتنا پڑی اب سی این جی کی بندش میں اضافہ ہوگیا اور بہت سے علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہونے لگی ہے۔ سوئی سدرن نے کہاتھا کہ 15 روز میں واجبات نہ ملے تو گیس کی فراہمی بند کردی جائے گی چیف جسٹس صاحب اگر ان تمام امور کو بھی کھولیں تو پتا چلے گا کہ کہاں کہاں خرابی ہے۔ کیا زیراعظم ایک سرکاری ادارے کو زبانی طور پر اضافی گیس کی فراہمی کا حکم دے سکتا ہے۔ وہ بھی ایسے پرائیویٹ ادارے کو گیس فراہمی جو 70 ارب روپے کا نادہندہ ہے اس کا جواب عدالت ہی وزیراعظم سے لے سکتی ہے سوئی سدرن کی انتظامیہ بھی خاموش ہے کیا اسے 70 ارب روپے مل گئے۔ کے الیکٹرک نے جو پرزے بیرون ملک سے منگوائے ہیں وہ فرنس آئل پلانٹس کے ہیں یا کسی ایسے ہی پرزے کانام لیا گیا ہے جس کی ضرورت بھی نہیں۔ اس کا ذکر بھی چیف جسٹس نے کیا ہے لیکن اگلی سماعت میں درج بالا امور پر توجہ دی جائے ناکہ کے الیکٹرک کی اصل خرابیاں سامنے آئیں۔ یہ محض بد انتظامی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اربوں کھربوں روپے غلط بیانی سے حاصل کرنے عوام کے خلاف دہشت گردانہ ماحول قائم کرنے انہیں دوہرے ٹارچر میں رکھنے کا مسئلہ ہے۔ عوام سے بجلی کے زیادہ بل وصول کیے جارہے ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کر ے تو اسے الٹا بجلی چوری کے جرم میں پھنسانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ پھنسا بھی دیا جاتا ہے۔ پاکستان کیا دنیا میں یوٹیلٹی سروسز فراہم کرنے والی شاید یہ واحد کمپنی ہوگی جو اپنے صارفین کی خدمت کے بجائے انہیں لوٹنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس پر خوب عمل کررہی ہے۔ چیف جسٹس محض لوڈ شیڈنگ کو ہدف بنائیں گے تو ممکن ہے کے الیکٹرک کچھ دنوں کے لیے لوڈ شیڈنگ بند کردے لیکن پھر اپنے سارے کام جاری کردے گی۔ جب تک کے الیکٹرک کے تمام دھندے نہیں روکے جائینگے اس وقت تک عوام کے ساتھ لوٹ مار جاری رہے گی۔ اگر صرف لوڈ شیڈنگ کی بنیاد پر گرفت کی گئی تو ایک ہفتے کے لیے لوڈ شیڈنگ میں واضح کمی کردی جائے گی اور لوگ بھی مطمئن ہوجائیں گے۔ اس ادارے کا ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ یہ اب اربوں روپے کے نادہندہ ہونے کے باوجود کمپنی کا معاہدہ مکمل ہنے پر دوسرے ادارے کو کمپنی دے کر جانے کی تیاری کررہاہے۔ کیا ان سے ٹیکس کی رقم وصول کی جائے گی۔ سوئی سدرن کے واجبات وصول کیے جائیں گے۔ پی ایس او کے واجبات وصول ہوسکیں گے یہ ٹی وی لائسنس فیس کے پیسے پی ٹی وی کو نہیں دے رہا اس کا ایک جرم نہیں ہے۔ چیف صاحب آدھا ہاتھ مارنے سے مجرم کو فائدہ ہوگا۔ ہر پہلو سے گرفت میں لیا جائے۔