حکمت کا دوسرا روپ!

286

واجب الاحترام صدر مملکت ممنون حسین کا ارشاد گرامی ہے کہ دوسروں کی ذمے داری سنبھالنے کی روش سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار فروغ پاتا ہے حکمت طاقت کا روپ دھارلے تو بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے سو، بہتر یہی ہے کہ بااختیار شخصیات ہوش کے ناخن لیں۔ صدر محترم ہوش کے ناخن چھڑ جائیں تو پھر ہوش رہتا ہے نہ ناخن۔ سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ گنجے کو ناخن مل جائیں تو دوسروں کا منہ نوچنا وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی داستان سے سبھی واقف ہیں مگر کسی نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ ایم کیو ایم کے عروج کی بنیاد حکمت پر رکھی گئی تھی مگر جوں جوں حکمت پر طاقت حاوی ہوتی گئی وہ زوال کی جانب بڑھتی گئی آج وہ کہاں ہے؟۔ یہ المیہ ہے یا سانحہ ہے بااختیار اور طاقت ور اداروں کو غور کرنا چاہیے لیکن بدنصیبی یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں غور و خوض کرنے کے بجائے ہر معاملے اور ہر مسئلے کا حل وقت پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو قومیں حالات کا تجزیہ کرنے کا ہنر جانتی ہیں وہ حالات کا رخ موڑنے کی اہلیت سے بہرہ مند ہوتی ہیں۔ افسوس! صد افسوس! کہ من حیث القوم ہم اس اہلیت سے محروم ہیں یہ جو عدالتوں سے پے در پے نااہلی کے فیصلے آرہے ہیں ہمارے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں دراڑیں پڑچکی ہیں، ہم ان دراڑوں کا سدباب کرنے کے بجائے آئینے میں نظر آنے والوں کا سدباب کررہے ہیں۔
عادل اعظم میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ جب حکومت اپنی ذمے داری سے گریز پائی کا رویہ اختیار کرتی ہے تو عدلیہ کو ایکشن لینا پڑتا ہے، انصاف کی فراہمی کے عمل کو مضبوط بنیاد فراہم کرنا اہل عدل کی اولین ترجیح ہوتی ہے مگر فرد واحد کچھ نہیں کرسکتا سو، مجھے بار کونسل اور وکلا کا تعاون درکار ہے۔ سینئر وکلا قانونی اصلاحات کے لیے تجاویز دیں اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں سہولتوں کی فراہمی انتہائی مایوس کن ہے لوگوں کی تکالیف اور پریشانیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر میری نیندیں حرام ہوچکی ہیں مگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے مجبوراً یہ کام مجھے کرنا پڑرہا ہے۔ چیف صاحب! اگر گستاخی معاف فرمائی جائے تو یہ کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی بھی قابل ستائش نہیں، بقول آپ کے کئی کئی دہائیوں سے مقدمات التوا کا شکار ہیں اور آپ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انصاف کی فراہمی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ آپ نے وکلا سے استدعا کی ہے کہ وہ ایسی تجاویز دیں جن کے ذریعے زیر التوا مقدمات کو نمٹایا جائے۔ پیشیاں بھگتے بھگتے سائلین کی کمر جھک چکی ہے مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نظام عدل کے کرتا دھرتاؤں کے سر فخر سے بلند ہیں وہ اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھ رہے ہیں اور اس کار لاحاصل پر بضد ہیں۔ عادل اعظم نے سینئر وکلا سے جلد انصاف کی فراہمی کے لیے تجاویز طلب کی ہیں۔ یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ انصاف کی فراہمی ٹینڈرز کے ذریعے ممکن نہیں، یہ توفیق کا معاملہ ہے۔ اللہ! توفیق دے تو انصاف کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں، نیت صاف ہو تو منزل قدم چومنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ ہم نے بارہا انہی کالموں میں یہ گزارش کی ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کے انبار کی بڑی وجہ جعلی مقدمات کی سماعت اور ان کی اپیل در اپیل کا منحوس چکر ہے، اول تو جعلی مقدمات کی سماعت ہی نہ کی جائے، دوم ان کی اپیل منظور نہ کی جائے اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکتی ہے بصورت دیگر یہی کہا جاسکتا ہے۔
جس دن سے ہم اقتدار میں ہیں
آرزو نہیں، حصار میں ہیں