نواز شریف کیا ملک کے غدار ہیں ؟

473

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت پیر کو قومی سلامتی کمیٹی کے 22ویں اجلاس میں ممبئی حملے سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف کا بیان گمراہ کن قرار دے دیا گیا۔ وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس میں وزیرِ دفاع اور خارجہ خرم دستگیر، وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور مشیرِ قومی سلامتی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ سمیت اعلیٰ عسکری قیادت بھی شریک ہوئی۔ اجلاس میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ائر چیف مارشل مجاہد انور خان اور چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے علاوہ اجلاس میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) سمیت دیگر اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے۔ اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی جانب سے ممبئی حملوں سے متعلق بیان کو متفقہ طور پر گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا۔ اعلامیے کے مطابق شرکا نے الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم کے بیان سے جو رائے پیدا ہوئی ہے وہ حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ممبئی حملہ کیس کی تاخیر کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ خود بھارت ہے جس نے نہ صرف ٹرائل کو حتمی شکل دیے بغیر غیر ضروری طور پر ملزم کو پھانسی دے دی، بلکہ پاکستان کو اجمل قصاب تک رسائی دینے کی درخواست بھی مسترد کردی تھی اجلاس میں اس بات کا عزم دہرایا گیا کہ پاکستان تمام سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
نیشنل سیکورٹی کونسل کا یہ خصوصی اجلاس ملک کی عسکری قیادت کی تجویز پر بلایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سابق و نااہل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ممبئی حملے کے حوالے سے دیے گئے متنازع بیان تھا۔ اس بیان سے ملک کی سیاسی فضاء میں ایک نیا ’’ایشو‘‘ سامنے آگیا ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے انگریزی روزنامے ڈان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ: ’’آپ کی حکومت کے خاتمے کی وجہ کیا تھی؟ نواز شریف نے براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ: ’’ہم نے اپنے آپ کو تنہا کرلیا ہے، ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارا موقف تسلیم نہیں کیا جارہا، افغانستان کا موقف سنا جاتا ہے‘‘۔ اس حوالے سے مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ممبئی حملوں کے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں چلنے والے مقدمے کے حوالے سے کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوسکی؟ نواز شریف کا کہنا تھا کہ: ’’عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں‘‘۔
نواز شریف کے اس انٹرویو کے بعد ملک کی اپوزیشن جماعتیں اور مختلف تجزیہ کار اسے انتہائی قابل اعتراض اور بھارت کے موقف کو نواز شریف کی جانب سے تسلیم کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ عسکری قیادت اور حکومت نے بھی اس بیان کا نوٹس لیا تھا۔ جب کہ نواز شریف کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ان کے خلاف نیب کی سخت احتسابی کارروائیاں جاری ہیں اور نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 8 مئی کو ان کی طرف سے اربوں ڈالرز کی بھارت میں منی لانڈرنگ کی اطلاعات پر تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ بھارت کو منی لانڈرنگ کے ذریعے مالی فائدہ پہنچانے کے الزام کے محض 5 دن بعد نواز شریف کا بھارت کی حمایت میں ممبئی حملے کے حوالے سے بیان کو ان کی جانب سے جوابی ردعمل ہی سمجھا جارہا ہے۔ نواز شریف پر بھارت سے خفیہ تعلقات کا اس لیے بھی شک کیا جاتا ہے کہ 2016 میں لاہور میں جب حساس اداروں نے ان کی ایک فیکٹری پر چھاپا مارا تھا تو وہاں بھارتی باشندے پائے گئے تھے جو قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے تحت وہاں موجود تھے۔ نواز شریف پر اس لیے بھی شک کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو 25 دسمبر 2015 کو ایک گھنٹہ قبل ظاہر کی گئی خواہش پر کابل سے براہ راست لاہور آنے کی دعوت دیدی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات کا اہتمام ہندوستان کے اسٹیل کے تاجر سجن جندل نے کیا تھا۔ یہ دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کی تاریخ کی انوکھی ملاقات تھی جو بغیر کسی طے شدہ شیڈول کے کی گئی تھی۔ یہ ملاقات اس بات کا واضح اشارہ بھی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے غیر معمولی مراسم ہیں یا رکھنا چاہتے ہیں مگر قوم نواز شریف سے آج بھی یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ: ’’آخری یہ تعلقات قائم کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تھی، اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوا ہے؟‘‘۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں نواز شریف کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ یہ بیان ملک اور ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اجلاس میں ’’ڈان لیک‘‘ کے مخصوص رپورٹر کی انٹرویو دینے کے لیے خدمات حاصل کرنے اور رپورٹر کو پروٹوکول دینے کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔ سوچنے کا نکتہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف نے اپنے اس بیان پر ہونٹ بند رکھے ہوئے ہیں جب کہ ان کے بھائی مسلم لیگ نواز کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کی پارٹی کے اہم رہنما وضاحتی بیانات دے رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ڈان کے رپورٹر نے ان سے اس انٹرویو میں سوال کیا تھا کہ: ’’آپ کی حکومت کے خاتمے کی وجہ کیا تھی؟‘‘ جواب میں نواز شریف نے ممبئی حملے کا ذکر کردیا۔ کیا اس جواب سے یہ یقین نہیں ہوتا کہ صرف یہی بات واضح کرنے کے لیے خصوصی انٹرویو کا ’’اہتمام‘‘ کیا گیا تھا؟۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے نواز شریف کے اس بیان پر بھارتی ردِ عمل پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ممبئی حملہ کیس کے تمام مراحل سے مکمل طور پرآگاہ ہیں، کیوں کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اس کیس کی تحقیقات کر رہا تھا جو وزارتِ داخلہ کا ماتحت ادارہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام حالات و واقعات اور کوائف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی دلچسپی اس واقعے کی صاف اور شفاف تحقیقات اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں نہیں بلکہ وہ اسے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف دورِ جدید کا میر جعفر ہے جس نے ذاتی مفادات کے لیے انگریزوں سے ہاتھ ملایا کر قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف محض چوری کے 300 ارب روپے، جو انہوں نے اپنے بیٹوں کی بیرون ملک کمپنیوں میں چھپا رکھے ہیں، بچانے کے لیے ریاست پاکستان کے خلاف مودی کی زبان بول رہے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمن نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ نواز شریف اپنا بیان واپس لیں گے۔ نواز شریف کا یہ بیان ان کے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے نعرے کا ازخود جواب بن گیا ہے اس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے نواز شریف کے اس بیان پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔ نواز شریف کے اس بیان سے اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مظلوم بننے کی خود ساختہ کوششوں پر بھی پانی پھر چکا ہے۔