بہترین گناہ گار

734

وہ مہینہ آغاز ہے جس کا چاند نظر آتا تو سرکار دوعالم ؐ فرماتے ’’یہ چاند خیر وبرکت کا ہے، یہ چاند خیر وبرکت کا ہے میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا کیا‘‘۔ روزہ اللہ سے لو لگانے کا مہینہ ہے۔ اس مبارک مہینے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خاص تعلق ہے۔ ہم رمضان المبارک کی آمد کے حوالے سے کچھ لکھنے کے لیے سوچ ہی رہے تھے کہ ایک حدیث نے رہنمائی کے در وا کردیے۔ یوں محسوس ہوا آسمانوں سے امن اور آگہی کا نور اتر آیا۔ ہادی عالم رسالت مآب محمدؐ کا فرمان ہے:
’’تم میں بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔
گناہ گار اور بہترین!!! اس تعلق، اس ربط پر ہم حیران تھے لیکن توبہ نے قفل کھول دیے، حیرت دور کردی۔
توبہ اسلام کے جمال کا مشاہدہ ہے۔ گناہ کے احساس کے نتیجے میں خود احتسابی کی صفت، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عطا۔ دو پیاسے خشک ہونٹ اور پھیلے ہوئے ہاتھ، درد دل کے ساتھ توبہ کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو جنت منزل ہوجاتی ہے۔ توبہ۔۔۔ رجوع، اشک شوئی اور امید کا سفر جس کی منزل اللہ کی رحمت ہے۔ بقول خلیل جبران:
تم بار بار اس منزل کی طرف جاؤ۔۔۔ اپنے آنسو اور اپنی آہیں لے کر
اور بار باراس سفر سے ہنستے اور مسکراتے واپس آجاؤ
انسان گندم کے کھیت کی طرح لہرا رہا ہوتا ہے لیکن ایک غلطی اس کھیتی کو برباد کردیتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سننے والے کا شوق بولنے والے کی زبان تیز کردیتا ہے اور غلطی، بھیانک غلطی ہوجاتی ہے ایسی صورت میں بہت سے لوگ سیدنا مسیح ؐ کا قول فراموش کردیتے ہیں کہ: ’’اگر تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو تو آگے بڑھے اور پتھر مارے‘‘۔ لیکن اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے بجائے لوگ چاروں طرف سے سنگ زنی شروع کردیتے ہیں۔ جب سب دروازے بند ہوجاتے ہیں صرف ایک دروازہ کھلا رہتا ہے، دائم کھلا۔ اللہ ارحم الراحمین کا دروازہ۔ توبہ کا دروازہ۔ ندامت اور شرمساری کے سوا کیا ہے جو ربّ کے حضور پیش کیا جائے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں:
’’ہم اللہ کے سامنے کیا پیش کریں۔ نامہ اعمال تو پیش کرنے کے قابل نہ رہا۔ دفتر عمل میں کیا دھرا ہے۔ عبادت منظور ہونا ہوکیا کہہ سکتے ہیں۔ ابلیس کی کروڑوں سال کی عبادت ایک انکار سے رائیگاں ہوگئی۔ ہم تو کتنے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں، من مانیاں کرتے ہیں۔ ہم نادان انسان کیا پیش کریں۔۔۔ ٹوٹے ہوئے دل اور بہتے ہوئے اشکوں کے ساتھ ہم اس کے سامنے سربسجود ہیں کہ اے اللہ یہ حقیر سرمایہ ہی ہم اس زندگی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ندامت اور شرمساری کے نذرانے تیرے سامنے حاضر ہیں۔ قبول فرما۔ ہماری فریاد جو صرف آنسوؤں کی زبان میں ہم بیان کرتے ہیں۔ تو قبول کرلے تو یہ موتی انمول ہیں۔ تجھے موتی پسند ہیں ہم تیری بارگاہ میں یہ موتی پیش کرتے ہیں‘‘۔
یہ توبہ کا وہ رخ ہے جو ہماری طرف ہے دوسرا رخ وہ ہے جو اللہ تعالی کی طرف ہے۔ توبہ کے باب میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرمادیجیے میرے ان بندوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ بلاشبہ اللہ کی ذات تمام گناہوں کو بخش دیتی ہے۔ بے شک وہ بہت بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (سورۃ زمر۔ آیت نمبر 53)۔
قرآن ہر عہد کے انسانوں کے درمیان قدر مشترک ہے۔ تحمل، معاف کرنا، تمام مخلوقات کے لیے رحیم و کریم ہونا، گناہوں پر پردہ ڈالنا، غفورالرحیم اور ارحم الراحمین خدا کے وہ نام ہیں جو قرآن میں بکثرت بیان کیے گئے ہیں۔ پوری کائنات کا رحم یکجا کریں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے رحم کے مقابل ایک قطرے کے برابر بھی نہیں۔ وہ ذات باری ہر لمحے ہر آن، ہماری ہر چیز معاف کردیتی ہے، وہ الفاظ بھی جو ہمارے کانوں میں داخل ہوکر ہماری روح کو تاریک کردیتے ہیں مگر یہ توبہ ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو گناہ گاروں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کی رحمت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ ختم المرسلین ؐ قرار دیتے ہیں: ’’جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں‘‘۔
انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ برائی انسان کی سرشت نہ ہو تب بھی اس سے بچنا ممکن نہیں۔ برائی حادثاتی ہی کیوں نہ ہو لیکن ہو سکتی ہے۔ ایسے میں توبہ کرنا معافی مانگنا کتنا اہم ہے۔ اتنا اہم کہ آسمان سے اس کے لیے معافی نامہ آیا ہے۔ سورۃ نور میں اللہ ربّ العزت پوچھ رہے ہیں: ’’کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے اس لیے کہ وہ بہت بخشنے والامہربان ہے‘‘۔ یہ مخلصانہ سوال ایسا ہے کہ پھر کون ہے جو توبہ کا تمنائی نہ ہو۔ توبہ اور گناہ کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ احساس ندامت، توبہ کی درخواست اور معافی کی طلبی کے باوجود بھی ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی کی توبہ کو اہمیت نہیں دیتے وہ انانیت اور بغض کا شکار ہیں اور اسلام کی آڑ لے رہے ہیں۔ توبہ انسان کی شخصیت اور معاشرے کی ناموزونیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ توازن قائم رکھتی ہے۔ ناخوشگوار واقعات کو سمیٹتی ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس عفو درگزر کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم لفظوں کے انتخاب اور جملوں کی ادائیگی میں باریک بینی اور احتیاط سے کام لیں۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو انسانوں کی عظیم تعداد سے مخاطب ہوں اور ملک کی یا اس کے کسی ادارے کی نمائندگی کررہے ہوں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو تنگ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ عفو درگزر کے خلاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ بدقسمت ہیں جو دوسروں کو برا بھلا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے بدلے کہیں سے صلہ پائیں۔ ایسے لوگ ہرجگہ سے بدنامی سمیٹ کر نکلتے ہیں۔ کبھی یہاں کبھی وہاں لیکن ان کی شرارتوں اور بغض میں کمی نہیں آتی۔ وہ اپنے بغض کے اظہار کے لیے انسانی جذبات خصوصاً مذہبی جذبات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مخفی منصوبے بروئے کار لانا اور معاشرے کا ماحول خراب کرنا ان کی پہچان ہیں۔ یہ وہ عفریت ہیں جو اپنی انسانیت لالچ کی راہوں میں گم کربیٹھے ہیں۔ جب ہم کسی کی معافی اور توبہ رد کرتے ہیں تو اپنی جنت بھی ہمیشہ کے لیے کھودیتے ہیں۔
جو کوئی بھی آج اور کل کے انسان کی سرنوشت سے تعلق رکھتا ہے وہ انسانوں کے مابین عفودرگزر، آپس کے اختلافات کے خاتمے اور مکالمے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ طعنہ زنی، نفرت انگیز احتجاج اور کفر کے فتوے انسانیت اور خصوصاً عالم اسلام اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ لوگ جو غلطیوں کا شکار ہوئے حادثوں کے مرتکب ہوئے جان رکھیں یہ حادثے بڑے رہنما ہوتے ہیں۔ انسان کو آگہی کی اس منزل تک لے جاتے ہیں جہاں عام حالات میں پہنچنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ تب انسان کا سارا غرور خاک میں مل جاتا وہ ربّ کے حضور سرنگوں ہوجاتا ہے۔ پھر وہ گناہ گار نہیں بلکہ بہترین گناہگار ہوجاتاہے کیوں کہ وہ توبہ کرنے والا ہوجاتا ہے۔ توبہ جو ربّ کائنات کو بہت عزیز ہے۔