سلامتی کمیٹی اور نواز شریف

325

ممبئی حملوں سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیان پر گزشتہ پیر کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایاگیا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستانی مسلح افواج کے سربراہوں نے شرکت کی۔ تاہم قومی سلامتی کمیٹی نے نواز شریف کا بیان مسترد کردیا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ میں تو نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کی مجبوری ہے کہ ان کا منصب میاں نواز شریف کا مرہون منت ہے اور وہ بھی ن لیگ کے رکن ہیں۔ تاہم مبصرین نے سوال اٹھایا ہے کہ شاہد خاقان پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا نواز شریف کے؟ یہ سوال اس لیے بے معنی ہے کہ شاہد خاقان بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ ان کے وزیراعظم تو نواز شریف ہی ہیں۔ گو کہ اس میں توہین عدالت کا پہلو نکلتا ہے لیکن احسان کا بدلہ تو کسی طرح چکانا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کا بیان غلط اور گمراہ کن ہے، ملکی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، ممبئی حمکوں کا ذمے دار پاکستان نہیں ہے۔ ادھر میاں نواز شریف نے کہاہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور غداری کا تعین کرنے کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے اور جو ذمے دار ہو اسے سر عام پھانسی دیدی جائے۔ میاں صاحب اس پر ضرور غور کریں کہ ان کی بے احتیاطی سے پورا فائدہ پاکستان کے دشمن ملک بھارت نے اٹھایا ہے۔ اس پر سوال اٹھ سکتا ہے کہ کہیں یہی تو ان کا مقصد نہیں تھا۔ بھارتی مبصرین زور دے رہے ہیں کہ بھارت نے نواز شریف پر بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ کس قسم کی سرمایہ کاری ہے؟ گو کہ بھارتی پروپیگنڈا ہرگز بھی قابل اعتبار نہیں کہا جاسکتا، خاص طور پر جب پاکستان کا معاملہ ہو۔ چنانچہ نواز شریف پر سرمایہ کاری اور ان کے بیان پر اتنا واویلا بے مقصد نہیں ہے۔ اس سے میاں نواز شریف کی ساکھ مزید مجروح ہوئی ہے جس کے اثرات عام انتخابات پر ضرور پڑیں گے۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیان پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بہت جامع تبصرہ کیا ہے کہ ’’نواز شریف کا بیان بے وقت کی راگنی ہے، تین بار وزیراعظم بننے والے شخص سے اتنی بے احتیاطی کی توقع نہیں تھی‘‘۔ لیکن نواز شریف تو اس سے پہلے بھی بے احتیاطی کے کئی مظاہرے کرچکے ہیں، خاص طور پر بھارت کے حوالے سے۔ میاں صاحب نے برضا و رغبت اوکھلی میں سر دے دیا ہے تو دھموکے تو سہنے پڑیں گے۔