امریکی قاتل کا فرار

294

ایک پاکستانی کے ایک اور امریکی قاتل کو فرار کرادیاگیا۔ عتیق بیگ کا قاتل امریکی سفارتکار کرنل جوزف بغیر کسی سزا کے بڑے آرام سے پاکستان سے نکل گیا اور ایک بار پھر حکومت پاکستان اور اس کے اداروں نے ثابت کردیا کہ پاکستانیوں کا خون پانی سے بھی سستا ہے اور جو چاہے آکر پاکستانیوں کو ہلاک کرکے ہاتھ ہلاتا ہوا چلا جائے ۔اگر یہی کچھ کرنا تھا تو اتنے دن کیوں لگادیے۔ جس دن نشے میں دھت کرنل جوزف نے ایک پاکستانی نوجوان کو سرعام قتل کیا تھا، اسی دن اسے بحفاظت سرحد پار کرادیا جاتا۔ اس ڈرامے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ افغانستان سے سی۔130 امریکی طیارہ سفارتکار کو لینے آیا اور کئی گھنٹے نور خان ائربیس پر کھڑا رہا اور مایوس ہوکر واپس چلا گیا۔ دو دن بعد یہی ڈراما دہرایاگیا اور قاتل امریکی مزے سے نکل گیا، یہ بتاکر کہ کوئی بھی پاکستان میں آکر پاکستانیوں کو قتل کرسکتا ہے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو اس پر شرم نہیں آئے گی۔ یا وہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کے بجائے آپس میں لڑتے رہیں گے؟ چند دن پہلے انہی کالموں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اندر خانہ سودے بازی ہورہی ہے اور کرنل جوزف بھی ریمنڈ ڈیوس کی طرح ملک سے فرار کرادیا جائے گا۔ امریکی قاتل کو دفتر خارجہ نے سفارتی استثنادیا ہے، یہ سفارتی استثنا نہیں بلکہ پاکستانیوں کو قتل کرنے کا اجازت نامہ ہے۔ عتیق بیگ کے ورثا ایک دن پہلے تک دیت لینے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ خون کا سودا کتنی رقم میں طے ہوا۔ امریکی سفارتکار کے سامنے پوری حکومت پاکستان اور اس کے تمام ادارے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ لیکن ہماری بڑی فعال عدالتیں کیا کررہی ہیں۔ سانپ تو نکل گیا اب لکیر پیٹتے رہیے۔ امریکا نے تسلی دی ہے کہ ویانا کنونشن کے تحت کرنل جوزف کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ایسی ہی کارروائی جیسی ریمنڈ ڈیوس کے خلاف کی گئی۔ دو پاکستانیوں کے قاتل کو کتنے برس کی سزا ملی جب کہ وہ سفارتکار بھی نہیں تھا۔ امریکا سے ایک خبر یہ آئی تھی کہ پاکستان سے بحفاظت نکل جانے والے ریمنڈ ڈیوس نے پارکنگ ایریا میں کسی امریکی سے یاتھاپائی کی تو پولیس نے پکڑلیا۔ معمولی سی سزا بھی ملی ہوگی کیونکہ اس نے ایک امریکی پر ہاتھ اٹھایا۔ اطلاعات کے مطابق دو روز قبل امریکی طیارے کی بے نیل مرام واپسی پر واشنگٹن نے دھمکیاں دی تھیں۔ چنانچہ وزارت خارجہ و داخلہ نے بخوشی ہتھیار ڈال دیے۔ ایسے میں ہماری کیا مجال کہ اسرائیل کی درندگی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرسکیں کہ اس کے پیچھے امریکا ہے۔ ہم ایک امریکی قاتل کو نہیں روک سکے تو اسرائیل کے ہاتھ کون روکے گا۔ ویسے بھی پاکستان میں تو آپس کی لڑائی زوروں پر ہے۔ پہلے اس سے نمٹ لیا جائے۔ ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک بار پھر پاکستان کو ذلیل کردیا۔