سیاسی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے گملے

489

قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان اور متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اسٹیبلشمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ قومی سیاست میں گملا قیادت تشکیل نہ دے۔ اسٹیبلشمنٹ سے فوج مراد لی جاتی ہے جسے اب خلائی مخلوق بھی کہا جانے لگا ہے۔ تاہم لیاقت بلوچ کے مشورے میں بین السطور یہ واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کئی بار گملا قیادت تشکیل دے چکی ہے اور یہ کوئی راز بھی نہیں۔ لیاقت بلوچ نے اس کی مثالیں بھی دی ہیں کہ ماضی میں پسند کی کنونشن لیگ، پھر جونیجو اور ق لیگ بنائی گئی اور اب پھر لوگوں کو ایک خاص جماعت میں شامل کیا جارہاہے۔ ماضی میں جو بھی شاہ پسند جماعتیں بنائی گئیں ان میں مسلم لیگ کا لاحقہ لگاکر انہیں معتبر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار لیاقت بلوچ کے بقول ایک خاص جماعت میں لوگوں کو شریک کیا جارہاہے اس کے نام میں مسلم لیگ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے اتنے دھڑے ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہے۔ طاقت ور حلقے نئی جماعت بنانے کے لیے مسلم لیگ کے نام پر کمبل ڈالتے رہے ہیں اور اس کا آغاز پاکستان کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ انہیں جب سیاست دان بننے کا شوق چرایا تو انہوں نے اپنے درباریوں کے مشورے پر مسلم لیگ کا کنونشن بلاکر کنونشن مسلم لیگ قائم کرلی جس کے سیکرٹری جنرل ذوالفقار علی بھٹو تھے اس کے جواب میں پیر پگاڑا نے فنکشنل لیگ بناکر دعویٰ کیا کہ یہ مسلم لیگ ہی فنکشنل یا متحرک ہے۔ ایوب خان کے خاص صلاح کار بلاول زرداری کے نانا بھٹو صاحب تھے جوا ایوب خان کی چاپلوسی میں اس حد تک چلے گئے تھے کہ انہیں ڈیڈی کہتے تھے۔ نو عمر بلاول کو شاید اپنے نانا اور اپنی پارٹی کی تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں اور ان کے اتالیق بھی انہیں نہیں بتاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب ایوب خان نے فارغ کیا تو انہوں نے کوئی نئی مسلم لیگ بنانے کے بجائے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ جونیجو مسلم لیگ ضیا الحق کے دور میں بنی اور ق لیگ کی بنیاد مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف نے رکھی۔ اس کو قائد اعظم مسلم لیگ کا نام دیا گیا اور یہ چودھری برادران کو سونپ دی گئی۔ اسی ق لیگ کے رہنما اور پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے کمال جمہوری عزائم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم جنرل پرویز مشرف کو 10 مرتبہ وردی میں صدر منتخب کریں گے۔ ق لیگ کے بانی سے اتنی عقیدت کا اظہار تو اپنے مربی کا حق تھا لیکن پھر پرویز مشرف کی وردی بھی اتری اور وہ اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ چھاڑ کر از خود جلاوطنی اختیار کرکے ملک سے فرار ہوگئے۔ یہ کمانڈو جنرل جو کہتے تھے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں، ڈر کے مارے پاکستان واپس آنے کے ہمت نہیں کررہے، عدالتیں انہیں طلب کررہی ہیں لیکن وہ ’’موافق حالات‘‘ کے منتظر ہیں اور یہ موافق حالات ان کے لیے وہ ہوں گے جب پاکستان میں ان کی مرضی کا اقتدار آئے گا اور اس کا اظہار وہ کرچکے ہیں کہ واپسی پر انہیں حکومت سے خطرہ ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک بھگوڑا جنرل کراچی میں مہاجروں کی قیادت کرنے کے عزائم رکھتا ہے۔ ٹھیک بھی ہے کہ ایم کیو ایم پر ان کے بڑے احسانات ہیں۔ لیاقت بلوچ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی قیادت لانا چاہتی ہے۔ اسے انہوں نے گملا قیادت کہاہے اور بلا شبہ پاکستان کے بیشتر سیاست دان فوج کی نرسری ہی کے تیار کردہ ہیں، ان میں نواز شریف بھی شامل ہیں۔ بلاول زرداری جب فوج سے وابستگی پر نواز شریف پر تنقید کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ان کے نانا بھی اسی نرسری کے ’’بوٹے‘‘ تھے۔ وہ صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کا انتخاب تھے جنہوں نے ان کو ایوب خان کی تحویل میں دے دیا۔ پھر نئے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان سے ان کی گاڑھی چھنی کہ دونوں ہی ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔ 1971ء کے سانحے کے بعد فوج ہی ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لائی تھی اور تاریخ نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ ایک سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔ ملک میں ایسی ایمرجنسی لگائی جو ان کی برطرفی تک نافذ رہی۔ بلاول کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی فوج کا انتخاب تھیں اور وزیراعظم بنانے سے پہلے ان کی پیشی جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ مرحومہ نے بھی ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا کہ اپنے انتخاب کے عوض فوج کو تمغائے جمہوریت عنایت کردیا۔ فوج اپنے گملے میں سے جس جس کو نکال کر قیادت میں لائی اسی کو اکھاڑ پھینکا۔ تازہ ترین مثال میاں نواز شریف کی ہے جو خلائی مخلوق کا واویلا کررہے ہیں لیکن کیا پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کا نیا گھوڑا ہے؟ کیا عمران خان خود سے وابستہ توقعات پر پورا اترسکیں گے؟ کہتے ہیں کہ ’’نہ گھوڑا دور نہ میدان‘‘۔ عمران خان بھی اپنی پارٹی کی جوانی میں جنرل پرویز کے قریب تھے اور اب بھی پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہ تو گملوں کی کمی ہے اور نہ ہی ان میں لگے ہوئے گل بوٹوں کی۔ نواز شریف اب بھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ دھرنوں کے اصل کرداروں کو بے نقاب کروں گا۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کا دھرنا میاں صاحب کے برسر اقتدار آنے کے اگلے سال 2014ء میں ہوا تھا۔ میاں صاحب اصل کرداروں کو بے نقاب کرنے کے لیے کیا اپنی نا اہلی اور برطرفی کا انتظار کررہے تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ دھرنوں میں عمران خان کے علاوہ بھی کئی کردار تھے لیکن میاں صاحب ان کرداروں کو بے نقاب کرنے کے لیے کس انتظار میں ہیں۔ اب تو ان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ اب انہیں ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں نہیں لگایا جائے گا۔ لیاقت بلوچ نے جو نشاندہی کی ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو متفق ہوکر کچھ کرنا ہوگا ورنہ۔۔۔!!