حقیقی جوتا‘ مجازی جوتے اور انصاف

454

انسان رسولِ اکرمؐ کا ارشاد مبارک پڑھتا ہے اور دہل کر رہ جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا تم سے پہلی قومیں اس لیے (بھی) تباہ ہوئیں کہ وہ کمزوروں کے جرائم پر ان کی گرفت کرتی تھیں اور طاقت ور لوگوں کے جرائم سے صرف نظر کرتی تھیں۔ رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد مبارک ایک آئینہ ہے۔ آئیے اس آئینے میں اپنے معاشرے کی تصویر ملاحظہ کرتے ہیں۔
روزنامہ ڈان کراچی کی ایک خبر کے مطابق ملتان میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم اعجاز احمد کو 18 سال قید بامشقت اور 3 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اعجاز احمد کا جرم کیا تھا؟ اعجاز احمد کا جرم یہ تھا کہ اس نے ملتان کے سینئر سول جج زاہد قیوم پر جوتا پھینک دیا تھا۔ خبر کے مطابق جوتا پھینکنے کا عمل بلا سبب نہ تھا۔ اعجاز احمد چوری کے مقدمے میں ماخوذ تھا اور اس کی ضمانت منظور ہوچکی تھی تاہم اس کے باوجود وہ جیل میں پڑا سڑ رہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ متعلقہ جج اس کی رہائی کے تحریر حکم نامہ جاری نہیں کررہا تھا۔ چناں چہ اعجاز نے اشتعال میں آکر ماتحت عدالت کے جج پر جوتا اچھال دیا۔ خبر کے مطابق ملزم نے اگر جرمانے کے 3 لاکھ روپے ادا نہ کیے تو اسے مزید ڈیڑھ سال کی سزا بھگتنی ہوگی۔ (ڈیلی ڈان کراچی۔ 6 مئی 2018ء)
اعجاز احمد نے جج پر جوتا اچھالا بہت بُرا کیا مگر ایک جوتے کی سزا 18 سال نہیں ہوسکتی۔ یہ سخت نہیں انتہائی سخت سزا ہے۔ 18 سال پوری زندگی ہوتے ہیں۔ ایک جوتا اور پوری زندگی؟ تسلیم کہ توہین ہولناک چیز ہے مگر اعجاز احمد کے مقدمے میں توہین کا سبب بھی موجود ہے۔ چلیے سب کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دیتے ہیں اور تسلیم کرلیتے ہیں کہ توہین کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس سلسلے میں کسی بھی سبب کی کوئی اہمیت نہیں اس کے باوجود 18 سال قید بامشقت رونگٹے کھڑے کردینے والی سزا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ملزم کو چھ ماہ یا ایک سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا۔ مگر نہیں اعجاز احمد کا جرم بہت ہی بڑا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے اعجاز کا جرم توہین عدالت ہے۔ جی نہیں یہ تو اس کا ’’ثانوی جرم‘‘ ہے۔ اس کا اولین اور زیادہ بڑا جرم یہ ہے کہ وہ ’’عادم آدمی‘‘ کیوں ہے؟ عام آدمی اور جج پر جوتا پھینک دے۔ یہ تو گویا ’’کفر‘‘ ہے اور کفر کی سزا کو انتہائی سخت ہی ہونا چاہیے۔
آئیے اب ایک اور منظر ملاحظہ کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ہمنوا گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں پر نہیں عدالت عظمیٰ پر بحیثیت ادارہ ’’مجازی جوتوں‘‘ کی برسات کررہے ہیں۔ ان مجازی جوتوں میں کچھ جوتے سیاسی ہیں۔ کچھ جوتے عدالتی ہیں، کچھ جوتے نفسیاتی ہیں، کچھ جوتے جذباتی ہیں، کچھ جوتے قانونی ہیں، کچھ جوتے فکری ہیں، کچھ جوتے تاریخی ہیں مگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میاں نواز شریف پر کیا مریم نواز شریف بلکہ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، حتیٰ کہ عابد شیر علی، طلال چودھری، احسن اقبال اور دانیال عزیز پر بھی توہین عدالت کا مقدمہ قائم کرکے انہیں چند ماہ کی سزا نہیں دے سکی ہے۔ ایک طرف ایک ’’حقیقی جوتے‘‘ کی سزا 18 سال اور دوسری طرف سیکڑوں مجازی جوتوں کی سزا صفر۔ ایک طرف ایک عام جج کی توہین دوسری طرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی توہین۔ عام جج کی توہین کی سزا 18 سال قید بامشقت اور اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی توہین کی سزا زیرو۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ عام آدمی اور خاص آدمی میں فرق نہ ہوتا تو میاں نواز شریف اور ان کے کیمپ کے ہر رہنما کو توہین عدالت کے جرم میں کم از کم سوسال کی سزا ہونی چاہیے تھی۔ ایک حقیقی جوتے کی سزا اگر 18 سال ہے تو درجنوں مجازی جوتوں کی سزا کم از کم سو سال تو ہونی ہی چاہیے۔ مگر عدالت عظمیٰ نے تو میاں صاحب اور نواز لیگ کے رہنماؤں کی توہین عدالت کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ اکبر الٰہ آبادی اور غالب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اس سلسلے میں یہی کہا جاسکتا ہے ؂
کتنے شیریں ہیں تیرے شو کہ یہ کورٹ
کوئی شُو کھا کے بدمزہ نہ ہوا
آپ کہیں گے کہ عدالت عظمیٰ نے نواز لیگ کے رہنما نہال ہاشمی پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی قائم کیا اور انہیں ایک ماہ کی سزا بھی دی۔ آپ نے ٹھیک کہا۔ مگر یہاں بھی مسئلہ وہی ہے۔ دھوبی پر بس نہیں چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے۔ بیچارے نہال ہاشمی کی اوقات ہی کیا ہے؟ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ انہیں کراچی میں کھڑا کرکے پھونک مار دو تو جاتی امرا میں جا کر گریں۔ سپریم کورٹ کا ’’جلال‘‘ تو اس وقت ’’جلال‘‘ دکھائی دیتا جب میاں نواز شریف، مریم نواز شریف یا عابد شیر علی کو توہین عدالت کے جرم میں 18 سال قید بامشقت کی سزا ہوتی اور 3 لاکھ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں انہیں مزید ڈیڑھ سال جیل کاٹنی پڑتی۔ اگر ملتان کی ایک عدالت اعجاز احمد کو توہین عدالت کے جرم میں 18 سال قید بامشقت کی سزا سنا سکتی ہے تو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی سیکڑوں بار توہین کے جرم میں انہیں کیوں 18 سال قید بامشقت کی سزا نہیں سنا سکتی؟ خیر جو ہوا سو ہوا۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف اور ہمنواؤں کو توہین کی جتنی اجازت دی ہے اتنی ہی توہین کا حق دوسرے رہنماؤں اور صحافیوں وغیرہ کے سلسلے میں بھی تسلیم کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے جتنا ’’صبر‘‘ میاں نواز شریف اور ان کی زرّیت کے سلسلے میں کیا ہے اتنا ہی ’’صبر‘‘ وہ مستقبل میں دوسروں کے حوالے سے بھی اختیار کرلے۔
میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے صرف سپریم کورٹ پر مجازی جوتے نہیں اچھالے بلکہ انہوں نے فوج کو بھی توہین اور تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کبھی فوج کو سقوط ڈھاکا یاد دلایا ہے۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یاد دلائی ہے، ’’امپائر کی انگلی‘‘ اور ’’لاڈلے کی سرپرستی‘‘ کی اصطلاحیں بھی فوج ہی سے متعلق ہیں اور اب ان دنوں ’’خلائی مخلوق‘‘ محفل محفل زیر بحث ہے مگر جس طرح سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی جانب سے پھینکے گئے درجنوں مجازی جوتوں کا بُرا نہیں مانا اسی طرح جرنیلوں کا دل بھی میاں صاحب اور ان کے شیدائیوں کے لیے براعظم بنا ہوا ہے۔ یہاں ہمیں سید منور حسن کا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جو انہوں نے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے دیا تھا۔ اس انٹرویو میں سید منور حسن نے کہا تھا کہ امریکا کے لیے جان دینے والوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سید منور حسن کی ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں تھی بلکہ یہ ایک ’’مذہبی موقف‘‘ تھا۔ لیکن اس موقف پر آئی ایس پی آر اتنا برہم ہوا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ ایک مذمتی بیان جاری کیا بلکہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر نے جماعت اسلامی پر زور دیا کہ وہ اپنے امیر کے بیان کا نوٹس لے۔ آئی ایس پی آر کو اچانک مولانا مودودی بھی یاد آئے اور اسلام کے لیے ان کی خدمات بھی۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی دو فوجیں ہیں۔ ایک Paid Army اور ایک Unpaid Army۔ جماعت اسلامی پاکستان کی UnPaid فوج ہے اور اس فوج نے ہر محاذ پر اپنی بساط سے بڑھ کر پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان نے پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑی، افغانستان میں جہاد کیا، کشمیر کے جہاد میں جانوں کے نذرانے پیش کیے، ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ کہیں فوج کے ساتھ اور کہیں کہیں اس سے بھی پہلے متاثرین کی مدد کو پہنچے ہیں۔ مگر آئی ایس پی آر کے ترجمان نے سید منور حسن کے ایک اصولی موقف پر بھی ابلاغی طوفان برپا کردیا۔ ایک طرف یہ صورتِ حال تھی اور دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے رہنما فوج کی تذلیل کررہے ہیں، اس کی تحقیر کررہے ہیں، اس کی توہین کررہے ہیں، اس کا نام بگاڑ رہے ہیں، طرح طرح کی ’’لیکس‘‘ ایجاد کررہے ہیں، فوج کے خلاف امریکا سے مدد مانگ رہے ہیں، فوج کے سلسلے میں برطانیہ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف برطانیہ میں بیٹھ کر مضمون لکھ رہے ہیں اور پاکستان اور برطانیہ کی غیر موجودہ مشترک تاریخ کا ورد کررہے ہیں۔ مگر سید منور حسن کے ایک سطری اصولی موقف پر جیکب آباد کی گرمی کا منظر پیش کرنے والا آئی ایس پی آر میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کے حوالے سے سائیبریا کی ٹھنڈ کا مظہر بنا ہوا ہے۔ آخر اس فرق کی کوئی تو وجہ ہوگی؟ کوئی اصول؟ کوئی بے اصولی؟ کوئی ضابطہ؟ کوئی بے ضابطگی؟ کوئی اپنا پن؟ کوئی غیرپن؟ کوئی قربت؟ کوئی دوری؟ کوئی انصاف؟ کوئی ناانصافی؟ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ سید منور حسن نے ایک فقرے میں ایک اصولی بات کہی اور اس پر ڈٹ گئے اور اس کی قیمت ادا کی۔ مگر کہیں ایک اصول کی بھی قیمت ہے اور کہیں بے اصولیوں کی خاموشی یا Encyclopedia کی بھی کوئی قیمت نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سید منور حسن نے جو کہا تھا اس کے ایک حصے کو قومی سلامتی کے مشیر سابق فوجی ناصر جنجوعہ نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان امریکا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہوا۔ آخر اس اعتراف کے بھی تو کچھ مضمرات ہونے چاہئیں۔
یہ سطور 11 مئی 2018ء کو تحریر کی گئی تھیں۔ 12 مئی 2018ء کے روز ڈیلی ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں نواز شریف نے ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا خوف ناک الزام فضا میں اچھال دیا اس صورت حال میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے اعلامیے میں نواز شریف کے الزام کی تردید اور مذمت پر اکتفا کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے مذمت کو ریزہ ریزہ کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ عسکری قیادت بھی نواز شریف کا کچھ نہ بگاڑ سکی اس کی وجہ پر گفتگو کرتے ہوئے معروف کالم نگار ایاز امیر نے لکھا۔
’’جو باتیں نواز شریف نے کی ہیں وہ کوئی سندھی یا پیپلز پارٹی کا کوئی رکن کرتا تو پنجاب میں ایسا طوفان آتا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا۔ ایسا کہنے والے کو زندہ چبالیا جاتا،
رونا یہ ہے کہ نواز شریف پنجاب کے لیڈر ہیں اور پنجاب آبادی اور وسائل کے اعتبار سے ملک کا سب سے طاقت ور صوبہ ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک حب الوطنی کا ٹھیکا اسی صوبے نے لے رکھا ہے۔ صوبہ کا لیڈر ہندوستان کی بولی بول رہا ہے‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 16 مئی 2018ء)
بدقسمتی سے یہ رائے صرف ایاز امیر کی رائے نہیں میاں نواز شریف کی صحافتی فوج کے ایک اہم سپاہی حذیفہ رحمن نے تقریباً 6 ماہ قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ پنجابی سیاست دان اور متحرک قوتوں کا آمنا سامنا ہوا ہے اس مرتبہ اکھاڑا پنجاب ہے۔ پنجابی سیاست دان کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا تھا‘‘۔ (روزنامہ جنگ 5 اکتوبر 2017ء)
پھر ان ’’معاملات‘‘ کو دیکھ کر کسی بھی محب وطن پاکستانی کو خیال آسکتا ہے کہ اقبال کے خواب، قائد اعظم کی تخلیق اور اسلامی جمہوریہ کہلانے والے پاکستان میں یہ کیا ہورہا ہے؟۔