بڑا دشمن

326

گزشتہ جمعرات کو حکمران مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں پارٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت کو نواز شریف کے بیانیے کا بوجھ اٹھا کر شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ نواز شریف کا مذکورہ بیانیہ فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی ہے جس پر پارلیمانی پارٹی کے کئی ارکان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اطلاعات کے مطابق میاں شہبازشریف نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سابق وزیر اعظم کو اپنے موقف میں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ لیکن میاں نواز شریف تو اپنے موقف پر اڑے ہوئے ہیں اور اسی میں اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ تاہم ن لیگ کے ارکان پارلیمان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے سے انتخابات میں دشواری پیدا ہوگی اور پارٹی کی کامیابی متاثر ہوگی۔ انہیں یہ بھی پریشانی ہے کہ لوگوں کے سوالات کا کیا جواب دیں گے کیوں کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے مبینہ انٹرویو کا پورا فائدہ بھارت کو پہنچا ہے۔ روزنامہ ڈان کے مطابق ایک وفاقی وزیر نے اپنے چیمبر میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے کچھ ارکان میاں شہباز شریف کے موقف کے حامی تھے اور کچھ نے نواز شریف کے بیانیے کی تائید کی اس طرح پارلیمانی پارٹی کے ارکان میں واضح تقسیم دیکھنے میں آئی۔ میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ن لیگ کے امیدوار ترقیاتی کاموں کو ووٹروں کے سامنے رکھیں جو ان کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ ن لیگ نے انجام دیے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن ترقیاتی کاموں کا زور پنجاب، بالخصوص لاہور میں رہا۔ لاہور میں کئی عالمی سطح کے منصوبے بنائے گئے۔ شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اورنج ٹرین کا افتتاح بھی کردیا بقول شہباز شریف انہوں نے لاہور کو پیرس بنا دیا اور وہ کراچی کو بھی نیویارک بنانے کے دعویدار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں سندھ میں بھی کامیابی ملے۔ اس کا امکان دور دور تک نہیں چنانچہ کراچی جن ہاتھوں میں ہے انہی کے ذریعے مزید خراب ہوتا رہے گا۔ بہرحال، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا انٹرویو کرانے والا سب سے بڑا دشمن ہے۔ انٹرویو تو ڈان لیکس میں بدنام ہونے والے سرل المیڈا نے کیا تھا لیکن شہباز شریف کے بیان سے ظاہر ہے کہ کسی نے خاص طور پر اس انٹرویو کا اہتمام کرایا۔ شہباز شریف کو اس شخص کا نام لینا چاہیے تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس شخص کا تعلق ن لیگ ہی سے ہوگا جس کے کہنے پر میاں صاحب نے ایک متنازع انٹرویو دے ڈالا اور مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ جو کہا وہ ٹھیک کہا۔ انٹرویو کرانے اور مخصوص سوالات کا جواب اگلوانے والا تو دشمن ہوسکتا ہے لیکن تین بار وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کیا اتنے ہی بھولے ہیں کہ جھانسے میں آگئے اور نتائج کا اندازہ کیے بغیر منہ کھول دیا۔ جس شخص کو یہ اندازہ نہ ہو کہ اس کے ’’ارشادات‘‘ کا فائدہ کسے اور نقصان کس کو ہوگا اس کو کوئی اہم ذمے داری سونپنا خطرے سے خالی نہیں۔ وہ اس ملک کے اہم ترین منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور ان کے علم میں کئی ریاستی راز بھی ہوں گے۔ ازروئے قانون وہ ان رازوں کو راز رکھنے کے پابند ہیں لیکن وہ اٹھتے بیٹھتے دھمکی دے رہے ہیں کہ ان کے سینے میں جو راز ہیں وہ افشا کردیں گے۔ ممبئی حملے کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا وہ بطور وزیر اعظم کیوں نہ کہہ دیا۔ اس حملے کے بارے میں اگر وہ ایک بھارتی صحافی مشرِف کی کتاب یا ایک جرمن صحافی کے انکشافات پڑھ لیتے تو شاید ان کی آنکھیں کھل جاتیں۔ ان صحافیوں نے ممبئی حملے کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ڈراما قرار دیا ہے جس کی آڑ میں بھارتی پولیس کے ایک دیانت دار افسر بہیمنت کر کرے کو قتل کرایا گیا جس نے سمجھوتا ایکسپریس میں آتشزدگی اور متعددپاکستانیوں کے قاتلوں کے نام افشا کیے تھے۔ ان کے سرغنہ نے اعتراف جرم بھی کیا لیکن وہ سب کے سب رہا ہوچکے ہیں۔ ان صحافیوں کے انکشافات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مرکزی مجرم اجمل قصاب کو بھارتی کارندے نیپال سے پکڑ کر لائے تھے لیکن نواز شریف نے پورا بھروسہ بھارتی حکومت کے دعوؤں پر کیا۔ خود بھارت میں اس پر اعتراض کیا گیا تھا کہ حملہ آور ایک چھوٹی سی ربربوٹ میں بیٹھ کر کس طرح سمندر پار کر کے ممبئی پہنچ گئے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کچھ ارکان ایسے بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بیانیہ بدلنے کی ضرورت نہیں ۔ ایسے لوگ میاں صاحب کے دوست بلکہ انہیں کسی برے انجام تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں ۔ ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف تو کہتے ہیں کہ نواز شریف سے اپنا بیان نرم کرنے کا کہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کو قائل کریں گے کہ وہ حساس معاملات پر مشاورت کے بعد بیان دیں۔ لیکن نواز شریف مشاورت کے قائل کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی صدارت کے دوران میں کبھی اپنے جنرل سیکرٹری سے مشاورت کجا ملاقات بھی نہیں کی۔ ان کے لیے یہ بڑا تکلیف دہ ہوگا کہ وہ کسی حساس یا غیر حساس معاملے پر منہ کھولنے سے پہلے مشاور کیا، کچھ سوچنے کی زحمت بھی گوارہ کریں ۔خود ان کی پارٹی کے ارکان کا کہناہے کہ میاں صاحب کے متنازع بیان سے پارٹی کو نقصان پہنچا ۔ بھارت نے کبھی اپنے جاسوس کلبھوشن کا الزام اپنے اداروں پر نہیں ڈالا۔ میاں صاحب کو جلسے جلوسوں سے فرصت ملے تو اس پر ضرور غور کریں کہ ان کے غیر ضروری بیان سے فائدہ کس کو ہوا اور نقصان کس کو ہوا۔ الطاف حسین نے کھلم کھلا پاکستان سے غداری کا مظاہرہ کیا تاہم وہ کہتا ہے کہ میں کئی بار اپنے بیان پر معافی مانگ چکا ہوں۔ میاں صاحب بھی اتنا تو کرسکتے ہیں مگر وہ مصر ہیں کہ جو کہا وہ صحیح کہا۔ میاں شہباز شریف بتائیں کہ بڑا دشمن کون ہے۔