جاوید احمد خان
جب کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ آپ رمضان میں کیا کریں گے، تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہوتا ہے کہ وہی کریں گے جو ہر رمضان میں کرتے ہیں روزے رکھیں گے نماز با جماعت بلکہ تکبیر اولیٰ سے پڑھنے کی کوشش کریں گے۔ شب بیداریوں کا اہتمام کریں گے۔ قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھیں گے تراویح بھی ادا کرنے کا اہتمام کریں گے۔ لیکن سوال اس رمضان کا ہے کہ اس رمضان میں کیا خاص بات ہے اور کیا اوپر دی ہوئی چیزوں کے علاوہ بھی کچھ اور کرنا ہو گا۔ یہ کچھ اور کیا ہے اور یہ کہ اس کی ادائیگی کس طرح ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کام تو ہمیں ہر رمضان میں کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ؐ کی حیات طیبہ کی روشنی میں ہمیں اس کام کو تلاش کرنا ہوگا۔ پانچ وقت کی باقاعدہ نماز ہجرت سے کچھ پہلے معراج کے موقع پر فرض ہوئی۔ روزے 2 ہجری میں فرض ہوئے زکوٰۃ کا ذکر تو مکی دور کی آیات میں ملتا ہے ۔ لیکن باقاعدہ زکوۃ اس کے نصاب اور مدات کے ساتھ مدنی دور میں فرض ہوئی۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 میں زکوۃ کی مدات کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ اب رہا حج۔ تو یہ دس ہجری میں باقاعدہ فرض ہوا 8ہجری میں فتح مکہ ہوا اس وقت کفار و مشرکین نے اپنے روایتی طریقے حج کیا 9ہجری میں مسلمانوں نے اپنے رسول ؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر اور مشرکین نے اپنے انداز سے حج کیا لیکن دس ہجری میں جب خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیا گیا اور صرف مسلمانوں نے اپنے نبی ؐ کی قیادت میں حج کیا۔ یہی حج اکبر کہلاتا ہے اور اس طرح حج کی عبادت بھی نبوت کے 23سال بعد فرض ہوئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عبادت ہے جو آغاز نبوت سے آپ ؐ پر فرض کی گئی۔ پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی آپ ؐ پر نازل ہوئی ا س میں وہ عبادت بتادی گئی، بلکہ ایک مشن، نصب العین اور ہدف (Target) دے دیا گیا۔ دوسری وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں کہ یا ایھا المدثر، قم فانذرو ربک فکبر اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھ کھڑے ہو لوگوں کو ڈراؤا اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو۔ بعثت نبوی ؐ کے وقت پوری دنیا شرک میں ڈوبی ہوئی تھی اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جھوٹے معبودوں کی خدائی کو ختم کرکے آپ ؐ کو ایک خدا کی خدائی قائم کرنا ہے اور اسی طرح بندوں پر سے بندوں کی خدائی ختم کرکے تمام بندوں کو ایک خدا کی خدائی کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس میں اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے الفاظ سے انداز تخاطب میں لاڈ اور پیار کا انداز چھپا ہوا ہے۔ چناں چہ آپ ؐ اس ہدف کے حصول میں دن رات جدو جہد میں لگ گئے آپ ؐ نے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو ایمان لانے کی دعوت دی۔ یہی وہ مشن اور نصب العین جو امت مسلمہ کو دیا گیا کہ جب جب بھی دنیا میں جھوٹے خداؤں کی بالا دستی ہو امت مسلمہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک خدائے واحد کی حکمرانی قائم کرنے کی سلسلے میں جان و مال کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کریں۔ اس جدو جہد کا پہلا معرکہ غزوہ بدر ہے جو 17 رمضان المبارک کو ہوا ایک طرف 313 اہل ایمان تو دوسری طرف ایک ہزار کفار ومشرکین کا لشکر اقلیت نے اکثریت کو شکست فاش دے دی اسی لیے 17رمضان المبارک کو یوم بدر بھی کہا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس کی تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ ہم اس کو مدینے جیسی اسلامی ریاست بنائیں گے۔ پاکستا ن کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور قانون ریاست کیا ہوگا محمد رسول اللہ کے نعرے قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے چھوٹے بڑے شہروں میں گونجتے تھے۔ ایک مسلمان یعنی امت مسلمہ کا رکن اور ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمے داری دہری ہوجاتی ہے کہ اپنے نبی ؐ کی امتی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ربک فکبر والا مشن لے کر کھڑے ہوجانا ہے دوسری طرف ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے اس ملک میں اللہ کے نظام کو نافذ کرنا ہے جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا اور جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور اپنے پرکھوں کا وطن چھوڑ کر اس وطن میں اللہ کا نظام قائم کرنے کے لیے آئے تھے۔ اب یہ کام کیسے ہو کسی بھی تبدیلی کے لیے معروف اور پرامن طریقہ یہ ہے کہ رائے عامہ کو اس تبدیلی کے حق میں تیار کیا جائے اور پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مطلوبہ انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ ویسے تو یہ ذمے داری مسلم لیگ کی بنتی تھی کہ اس نے اسلام کا نعرہ لگا کر ملک حاصل کیا تو پھر وہی اس ملک میں اسلام کو نافذ کرے لیکن مسلم لیگ اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہو کررہ گئی یہ کام جماعت اسلامی نے اپنی ذمے داری سمجھ کر اٹھایا، سب سے پہلے تو مولانا مودودی نے تمام مکاتیب فکر کے علماء کو ساتھ ملاکر قرارداد مقاصد منظور کرائی جس کی حیثیت ایک طرح سے ریاستی کلمہ کی سی ہے۔ اب یہ قرارداد مقاصد ہمارے آئین کا اہم حصہ ہے، اس کے بعد مولانا محترم نے اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ قرارداد مقاصد کی منظوری اور جمہوریت کے حوالے سے جدوجہد اس کی ایک طویل داستان ہے مولانا مودودی نے دن رات ایک کرکے جس پتا ماری سے یہ کام کیا وہ وہی کرسکتے تھے۔ جمہوریت کے اس لیے قائل تھے مولانا یہ سمجھتے تھے آج کی دنیا میں انقلاب لانے یا کسی بھی قسم کی مطلوبہ تبدیلی کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرکے انتخابات میں حصہ لیا جائے اس انتخاب میں کامیابی کے بعد ہم اسلامی انقلاب لا سکتے ہیں لیکن اگر ہم رائے عامہ کو بیدار کیے بغیر کسی شارٹ کٹ طریقے سے انقلاب لائیں گے وہ پائیدار انقلاب نہیں ہوگا۔ اس کے بعد سے جماعت اسلامی ہر انتخاب میں حصہ لیتی رہی ہے کبھی اکیلے تنہا اور کبھی کسی اتحاد میں شامل ہو کر۔ ہر انتخاب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن یہ سوال تو ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ اب تک جتنے انتخاب میں اور جیسے بھی ہم نے حصہ لیا اس میں ہم اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہو سکے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اب تک اس ملک میں جتنے انتخابات ہوئے ہیں وہ انجینیرڈ انتخابات تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی موقع پر مولانا سے یہ سوال کیا گیا تھا آج کل ملک میں جس طرح کے انتخابات ہوتے ہیں اس میں کیا جماعت اسلامی کامیاب ہوسکتی ہے۔ مولانا نے جواب دیا کہ آج کی دنیا میں معلوم اور معروف طریقہ تو یہی انتخابات میں حصہ لے کر تبدیلی لائی جائے لیکن اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں کے پابند نہیں ہمیں یکسوئی اور تندہی سے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ اگر انتخاب سے نہیں تو اللہ کسی اور ذریعہ سے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت ہم دیکھیں تو اللہ نے بھٹو سے اسلامی آئین بنوا دیا قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوا دیا ہمارا آئین کہتے ہیں کہ ایسا ہے کہ اگر اسی آئین کا پوری طرح نفاذ ہوجائے اچھا خاصا اسلامی نظام قائم ہو جائے، پھر اس آئین کی حفاظت کا بھی ایسا انتظام ہوا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ پی پی پی اس آئین کو اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے اس لیے جب اور جہاں کہیں آئین کے خلاف کوئی بات کرتا ہے پی پی پی خم ٹھونک کر سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنادیا۔ آج کل نواز شریف کے خلاف کرپشن کے جو مقدمات چل رہے ہیں اور ان کی نااہلی کا فیصلہ بھی آئین کی دفعہ 62کے تحت ہوا ہے۔وہ بھی جنرل ضیا کے دور میں نافذ ہوئی۔
باقی صفحہ9نمبر2
حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینلوں پر انعامی پروگراموں پر جو پابندی لگائی ہے اس کے لیے کتنا ہی زور دار بیان دیاجاتا یا مظاہرے ہوتے تو شاید یہ کام نہ ہو پاتا اسی طرح کچھ عرصے قبل پنجاب اسمبلی میں یہ قانون پاس ہوا ہے کہ پرائمری سے میٹرک تک قرآن کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ ہمارا کام اپنے مشن اور نصب العین کے حصول کے لیے جمہوری اور جائز طریقے سے جدوجہد کرنا ہے باقی یہ کام اللہ کا ہے وہ کس طرح سے اپنے دین کو نافذ کرتا ہے۔
اب اس رمضان میں ہمیں یہ کام کرنا ہے کہ دوران رمضان ہی انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل قائم ہو چکی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دعوتی کام میں پہلے سے زیادہ فعال ہوجائیں ہمارے نبی نے ماہ رمضان میں جنگیں لڑی ہیں ہمیں اپنے ملک میں تبدیلی کے لیے انتخابی میدان میں جنگ لڑنا ہے ایک کارکن یہ کام تو کر سکتا ہے اپنے گھر پہ افطاری کا اہتمام کرکے اہل محلہ کو بلائے جتنے لوگ بھی آجائیں ان کے سامنے دین کی دعوت کے ساتھ ملک میں اسلامی انقلاب کے لیے متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کے لیے ان سے تعاون طلب کریں ہم اس میں جتنا متحرک اور فعال رول ادا کریں گے اتنا ہی ہماری منزل قریب آتی جائے گی۔ اس رمضان میں کرنے کا یہی کام ہے۔