عالمی عدالت انصاف کی طفل تسلی

287

مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی درندوں نے جس دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر گزشتہ جمعہ کو متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر پاکستان کے کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ لیکن یہ احتجاج اتنا شدید نہیں تھا کہ اس کی گونج امریکا یا اقوام متحدہ کے چودھریوں تک پہنچتی۔سب سے بڑا احتجاج ترکی میں ہوا۔ ترکی نے اسرائیلی سفیر کو بھی ملک سے نکال دیا۔ جنوبی افریقہ ایک غیر مسلم ملک ہے لیکن اس نے بھی اسرائیلی درندگی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی سفیر کو نکال دیا۔ ترکی نے امریکا اور اسرائیل سے اپنے سفیر بھی واپس بلا لیے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی مسلم ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں ۔ کم از کم وہ تو منقطع کردیے جانے چاہییں۔ امریکا اسرائیل کا پشت پناہ اور اصل مجرم ہے لیکن اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ۔ یہ کام پاکستان کو کرنا چاہیے مگر حکمرانوں میں اتنا دم کہاں۔ وہ تو پاکستانیوں کے امریکی قاتلوں کو سزا نہیں دلواسکے اور جانے دیا۔ پاکستانی قوم سڑکوں پر آ کر احتجاج ہی کرسکتی ہے۔ تاہم جمعہ کے احتجاج میں گرمی اور رمضان کی وجہ سے بھرپور مظاہرہ نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف فلسطین میں اسرائیلیوں کے حملے جاری ہیں اور شہادتوں میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے قتل عام کی آزادانہ تحقیقات کرے گی اور غزہ میں کشیدگی پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ عدالت انصاف کی خاتون پراسیکیوٹر جنرل نے کہا ہے کہ جرائم میں ملوث عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ مگر یہ کام کب ہوگا۔ سیکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے کہ اس کی آزادانہ تحقیقات کی جائے۔ اور یہ آزادانہ تحقیقات کیا ہوتی ہے ؟ غزہ کے حالات پر گہری نظر رکھنے سے کیا وہاں اسرائیلی بدمعاشی بند ہوگئی ہے۔ اس قسم کے اعلانات محض مسلمانوں کی تسلی کے لیے ہیں اور یہ بتانا کہ گھبراؤ مت، ہم تحقیقات کریں گے۔ جہاں تک جرائم میں ملوث عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان ہے تو یہ کام کون کرے گا۔ کیا عالمی عدالت انصاف کو معلوم نہیں کہ اصل مجرم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ہے اور اسی کے حکم پر فوج نے کارروائی کی ہے۔ مجرم چھپے ہوئے نہیں ، سب کے سامنے ہیں ۔ لیکن کیا گہری نظر رکھنے اور تحقیقات کا اعلان کرنے سے فلسطینیوں کو انصاف مل جائے گا۔ اقوام متحدہ ہو یا عالمی عدالت انصاف، ان کو دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف کوئی تشویش نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ درجنوں مسلم ممالک پر مشتمل عالم اسلام کیا کررہا ہے ؟ اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) نے استنبول میں اجلاس طلب کیا ہے جس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی گئے ہیں ۔ لیکن پہلے اجلاس میں ابھی لائحہ عمل طے ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن ممالک کے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے رابطے ہیں وہ منقطع کردیے جائیں اور اگر امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا حوصلہ نہیں تو امریکی مصنوعات کا اجتماعی طور پر مقاطعہ کردیا جائے۔ اگر اب بھی یہ نہ ہوا تو مسلمان یہودی اور امریکی درندوں کے ہاتھوں اسی طرح خوار ہوتے رہیں گے۔ جماعت اسلامی پاکستان اور متحدہ مجلس عمل کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے بھی خطبہ جمعہ میں کہا ہے کہ امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کرنا مسلم دشمنی اور عالمی فسادکو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ امریکا ٹرمپ کی قیادت میں مکمل طور پر صہیونیوں کی گود میں گر گیا ہے، عالم اسلام کی قیادت وقت گزاری اور غیر موثر اعلانات کے بجائے فلسطین، کشمیر، شام، یمن اور روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ یہ اقدامات کیا ہوں، ان کے بارے میں بھی ایک خاکہ پیش کردینا چاہیے۔ لیاقت بلوچ نے عالم اسلامی کے مسائل میں یمن کو بھی شامل کیا ہے جس پر توجہ بہت کم دی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ مسلم ممالک کی باہمی لڑائی ہے، اس کے پیچھے عالمی عالمی قوتیں ہوسکتی ہیں لیکن مہرے تو عرب ممالک ہی ہیں جو یہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ عربوں کو آپس میں لڑا کر ان کو کمزور کیا جارہا ہے اور بڑے ملکوں کی تقسیم کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے۔ امریکی ادارے پینٹا گون نے ایک بار پھر پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردی سے متاثر تو ہے لیکن اس کے ساتھ دہشت گردی کا اسپانسر بھی ہے، پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خطے کی حفاظت کے لیے ہمارا اتحادی بنے۔ حیرت ہے کہ پینٹا گون نے پاکستان پر جو الزام لگایا ہے اس کا مستحق سب سے زیادہ وہ خود ہے۔ امریکا پوری دنیا میں دہشت گردی کا اسپانسر اور سرپرست ہے ۔مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ ہوا اس کا اسپانسر بھی امریکا ہی ہے۔افغانستان پر قبضے سے اس پورے خطے کو عدم استحکام سے دو چار کر رکھا ہے اور ایک بارپھر پاکستان کو اتحادی بننے کی دعوت دی ہے۔ امریکا نے اب تک اس اتحادی کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد تو اسے شرم آنی چاہیے۔ اگر امریکا کو واقعی عالمی امن درکار ہے تو وہ سب سے پہلے مقبوضہ فلسطین سے اسرائیلی قبضہ ختم کروائے اور خود بھی افغانستان، عراق اور لیبیا سے نکل جائے۔ عالمی عدالت انصاف ذرا اس طرف بھی توجہ دے۔