ایک قصہ پروفیسر اسحٰق جلالپوری مرحوم کا

1704

لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کو پڑھانا سب سے مشکل کام ہے۔ ہوگا۔ مگر بچوں کو پڑھانے والوں کو پڑھانا اُس سے بھی مشکل کام ہے۔ اِس بات سے اتفاق وہی کرسکتا ہے جو خود اِس ’عذابِ دانشِ حاضر‘ سے گزرا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسے اُستاد ویسے شاگرد۔ مگر دفتروں اور اِداروں میں ایک اور پیشے سے اکتساب کیا جاتا ہے۔ ’باس‘ چوں پیر شود پیشہ کُند ’اُستادی‘۔ بڑے اداروں میں اپنے کام کا ماہر جب بوڑھا ہونے لگتا ہے تو اُس کو اپنا کام دوسروں کو سکھانے پر مامور کردیا جاتا ہے۔ ایسا ہی قومی فضائی کارپوریشن کے اِس اہل کار کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ سو، یہ عاجز بھی حکیم الامت کی طرح یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ:
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اِس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
اگر کوئی ادارہ زیادہ وسیع وعریض ہو، اُس کے دفاتر دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہوں، تو ایسے ماہرین ’سکھانے والوں‘ کو سکھانے پر لگادیے جاتے ہیں۔ اساتذہ سے زیادہ ’’رٹو توتا‘‘ بھلا اور کون ہو سکتا ہے؟ ایک روز یہ عاجز ایسے ہی بوڑھے اور رٹو توتوں کو ایک جدید اور خودکار نظام کا خاکہ پڑھا رہا تھا۔ پڑھانے کے دوران میں جب ایک پنچھی نے پر پھڑپھڑاتے ہوئے اِس بات پر احتجاج کیا کہ:
’’ یہ کیا مصیبت ہے؟ ابھی ہمیں پچھلے نظام پر عبور حاصل نہیں ہوا ہوتا کہ نیا نظام آجاتا ہے‘‘۔
تو پنچھی کو پچکارتے ہوئے عرض کیا: ’’حضرت! زمانے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ اور بقولِ اقبالؔ :
یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں جس کی روا روی میں
بلکہ اب توآپ کو اپنے گھر کے آگے کی سڑک پار کرتے ہوئے بھی فراٹے اور زنّاٹے بھرتی ہوئی گاڑیوں کی سی رفتار سے سوچنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کی سوچ اِس رفتار کا ساتھ نہ دے سکی تو شاید آپ کو اگلی سوچ سوچنے کی مہلت ہی نہ مل سکے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ افراد تو افراد۔۔۔ قومیں کچل گئی ہیں اِس کی رواروی میں‘‘۔ بابا جی پھر بھی آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے ہی پر مُصر تھے۔ یہ منظر دیکھا تو ہمیں ایک اور بابا جی یاد آگئے۔ اُن کا نام تھا پروفیسر محمد اسحاق جلالپوری۔ اتفاق دیکھیے کہ آج پروفیسر صاحب کی برسی ہے۔ ان کا انتقال 20مئی 2011ء کو راولپنڈی میں ہوا تھا۔
پروفیسر صاحب مرحوم ’’تعلیم بالغان‘‘ یعنی بوڑھے توتوں کو پڑھانے کے ماہر تھے۔ آپ اُستاذ الاساتذہ بھی تھے۔ صوبہ سندھ کو چھوڑ کر باقی تمام صوبوں اور آزاد کشمیر کی نصابی کمیٹیوں میں شامل رہے ہیں۔ ہر جگہ ’’تربیتِ اساتذہ‘‘ (Teachers’ training) کے لیے طلب کیے جاتے تھے۔
پروفیسرصاحب بہت دِلچسپ ’گائے‘ تھے۔ بزبانِ انگریزی بھی اور بزبانِ اُردو بھی۔ مگر اُردو میں وہ اللہ میاں کی گائے نہیں تھے۔ بزبانِ اُردو وہ اُسی قسم کی گائے تھے جس قسم کی گائے کی توصیف علامہ اقبالؔ نے ان الفاظ میں کی ہے کہ ’اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوکدار سینگ‘۔ اللہ اُن کے درجات بلند کرے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ پروفیسر صاحب کے شوخ نوکیلے فقرے دماغ میں کھُب جاتے اور دِل میں اُتر جاتے تھے۔ اُن کا مکمل اور مفصل تعارُف اُن کی لائق صاحبزادی محترمہ فرحت نعیمہ نے تحریر فرمایا ہے، جو خود بھی استاد ہیں اور صاحب اسلوب ادیبہ۔ ان کا تحریرکردہ تعارف ابھی تک کہیں شائع نہیں ہوا ہے، ان شاء اللہ کہیں شائع بھی ہو جائے گا۔ فی الحال تو فقط وہ قصہ سنیے جو سلسل�ۂ کلام میں یاد آگیا۔ ہوا یوں کہ ایک روزاساتذہ کے ایک تربیتی کیمپ میں اُنہوں نے کوئی دوگھنٹے کا لیکچر دیا۔ ایک نیا طرزِ تعلیم رُوشناس کرایا۔ طریقۂ تعلیم نہایت مُفید، مؤثر، مشینی اور انقلابی تھا۔ اکثر شرکاء نے اِسے پوری توجہ، دلچسپی اور انہماک سے سُنا۔ سوال جواب ہوئے۔ لیکچر اختتام کو پہنچا تو پروفیسر صاحب نے اپنے کاغذات سمیٹے اور روسٹرم چھوڑ دیا۔ شرکاء اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بزرگوار نے کرسی کے دونوں ہتّھوں کا سہارا لے کر ٹیڑھے ٹیڑھے اُٹھتے ہوئے ایک سیدھا سادہ سا مصرع پڑھ دیا: ’’ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت!‘‘ (جو بھی آتا ہے نئی عمارت بناتا ہے) اُن کی بدقسمتی کہ پروفیسر صاحب کے تیز کانوں نے یہ فقرہ (یا مصرع) سُن لیا۔ فوراً پلٹ آئے۔ روسٹرم ایک بار پھرسنبھال لیا: ’’ذرا چند منٹ تشریف رکھیے!‘‘
لوگ پھر بیٹھ گئے۔ پروفیسرصاحب کا ناریل چٹخ چکا تھا۔ اب جو وہ رواں ہوئے تو پھر ’ساٹھ منٹ‘ تک روکے نہ رُک سکے۔ مگر یہ لیکچر پہلے سے بھی زیادہ دلچسپ، فکر انگیز اور علم افروز تھا۔ آغازکچھ یوں ہوا:
’’بندہ پرور! گستاخی معاف ۔۔۔ اگر ایسانہ ہوتا تو آج ہم غاروں میں مکین ہوتے۔ پتے باندھ کر سترپوشی کررہے ہوتے۔ پتھر مار کر جانور شکار کررہے ہوتے۔ چقماق دریافت نہ کرپاتے۔ کچے گوشت پر گزر بسر ہورہی ہوتی۔ شب وروز موسم کی سختیوں اور درندوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہوتے اور ۔۔۔‘‘
الغرض، پروفیسر صاحب ایک گھنٹے تک علم و فن کے ارتقا کی کہانی سُناتے رہے۔ مگر کہانی سُننے والا یہ سوچتا رہا کہ یہ باریش پروفیسر جو عملی زندگی میں ایک کٹّر بلکہ کٹ کھنا مولوی ہے، اِس شخص کی فکر کس قدر ترقی پسندانہ ہے۔
پروفیسر صاحب اکثر کہا کرتے کہ: ’’سچ پوچھیے تو تمام ترقیوں کی بنیاد اسلام نے ڈالی‘‘۔ یہ اسلام ہی ہے جو ہر طالب علم کو کیوں اور کیسے؟ کے سوالات اُٹھانے پر اُکساتا ہے۔ زمین وآسمان وجِبال ہی نہیں اونٹ کی خلقت پر بھی غورکرنے کوکہتا ہے۔ رات دن کے آنے جانے اور سونے جاگنے میں اللہ کی نشانیاں تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کچھ مظاہر کو اہلِ تعقل کے لیے، کچھ کو اہلِ تدبّر کے لیے اور کچھ کو اہلِ تفکر کے لیے نشانیاں قرار دیتا ہے۔ علم وفن اور صنعت وحرفت کے ارتقا سے بے بہرہ ہوکر رہنے کو زُہد وتقویٰ اور فقر وتصوف نہیں قرار دیتا۔ خود رسول اللہ ؐ نے اپنے دور کی ایجادات سے استفادہ فرمایا۔ آپؐ سے قبل کسی نبی نے تبلیغ کے لیے خط وکتابت کی ’کمیونیکیشن ٹیکنالوجی‘ استعمال نہیں فرمائی تھی۔ آپ نے یہ جدید ترین طریقہ اختیار فرمایا۔ آپؐ نے نہ صرف لوگوں کو کتابت کا فن سیکھنے کی ترغیب دی، بلکہ اِسے ’فدیہ‘ کا عوض بھی ٹھیرایا۔ آپؐ کے جانشینوں نے بھی ایجادات سے استفادہ کیا۔ حتیٰ کہ بقول ڈاکٹر حمیداللہ سیدنا عثمانؓ کے دور تک مسلمانوں نے بحریہ تیار کرلی تھی اور بحری بیڑا تشکیل پاچکا تھا۔ بعد کے مسلمانوں نے علمِ ہیئت، کیمیا، طبیعات، ریاضی اور طب وغیرہ وغیرہ میں وہ کمال پیدا کیا کہ:
بہار اب جو دُنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پود اُنھی کی لگائی ہوئی ہے
آج جو آپ شیشے کا نہایت نفیس اور منقش آب خورہ سستے داموں لے آتے ہیں۔۔۔ ’اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا‘ ۔۔۔ تو قیصر وکسریٰ کے زمانے میں تو ایسا نفیس شیشے کا پیالہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھا۔ علم نے، فن نے، اور مشینوں نے اسے ارزاں، عام اور سہل الحصول کردیا ہے۔ ہمارے دین نے ہمیں علم وفن سے بیگانگی اور بیزاری کی راہ کبھی نہیں دکھلائی۔ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علیؒ ندوی نے اس مفہوم کی بات لکھی ہے کہ دورِ جاہلیت کو مدِنظر رکھ کر اگریہ ’گیلپ سروے‘ کرایا جاتا کہ اس معاشرے کو سدھارنے کے لیے آسمان سے جو پہلی وحی نازل ہوگی وہ کیا ہوگی؟ توسب کچھ کہا جاسکتا تھا مگر یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ایک نب�ئ اُمی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے خود کبھی قلم کو حرکت دینا سیکھا ہو نہ قلم کے فن سے واقف ہو اُس پر پہلی وحی ’’اِقْرَاء‘‘ نازل ہوگی اور ربّ اکرم کے احسان کے طور پر یہ بات بتائی جائے گی کہ۔۔۔ ’’عَلَّمَ بِالْقَلَم۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَم یَعلَم‘‘۔
بعض لوگ دینداری کا بہت محدود سا تصور رکھتے ہیں۔ مگر ایک ایسے زمانے میں کہ جب ابھی بہت سی موجودہ ایجادات، اور سائنسی ترقیاں پردۂ تقدیر ہی میں تھیں ڈاکٹر مصطفی سباعی نے (1955ء ہی میں) یہ بات کہہ دی تھی:
’’ہم جب اِس تہذیبِ منتظر کی زمام اپنے ہاتھ میں لیں گے تو خلا میں پرواز کو اللہ کے انکار کی دلیل نہیں بنائیں گے۔ برِّاعظموں کی حدود پھاندنے والے راکٹوں اور میزائلوں کو اقوامِ عالم کے دھمکانے اور اپنے دائر�ۂ نفوذ میں لانے کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔۔۔‘‘ وغیرہ۔ پس اے لوگو! بنیادی خرابی مشینوں میں نہیں ہوتی۔ اصل فتور ’مشین مَین‘ کے عقیدے، عقل اور نیت میں ہوتا ہے۔ تو ۔۔۔ ’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟۔