ہم اور جھوٹ کی نفسیات

618

قومی زندگی کے سرسری جائزے کے بعد یہ بات آسانی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے لیے جھوٹ، ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہوچکا ہے جس طرح ہم ہوا اور پانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی طلب بھی محسوس کرتے ہیں بلکہ ہوا اور پانی تو ہم اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں لیکن جھوٹ کا استعمال ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جاسکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی اُمید ہو۔ جھوٹ کی یہ صورت بھی کئی دوسرے حقائق کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے لیکن اپنی زندگی میں ہم جس طرح ہر لمحے جھوٹ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان کے جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اگر قوم کی اسلام پسندی کو دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان ہونے کا شدت سے دعویدار ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے گویا اسلام سے محبت اور اس کا تحفظ صرف اور صرف اس کی ذمے داری ہو مگر جب اس کی عملی زندگی کو دیکھو تو دوسرا ہی منظر سامنے آتا ہے، ہم میں سے اکثر جتنی پابندی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اتنی ہی پابندی سے رشوت بھی لیتے ہیں، جتنے خلوص سے روزے رکھتے ہیں اتنے ہی خلوص کے ساتھ اشیا میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں۔ جتنی خاموشی سے غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں اتنی ہی خاموشی سے ریاستی ٹیکس چراتے ہیں۔ جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ، ہر جگہ جھوٹ، یہ سب صورتیں جھوٹ کی عملی شکلیں ہیں اگر اہرمن کا وجود تسلیم کرلیا جائے تو ہم میں سے ہر ایک جھوٹ کا ایک مستند پیغمبر ہے، ہماری زندگی ہم پر نازل ہونے والے جھوٹ کا صحیفہ ہے اور ہم خود اپنی امت ہیں، امت شر، ایسی امت شر جس کے شر کا نشانہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔
جھوٹ کتنی ناپسندیدہ چیز ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کسی بڑے سے بڑے جھوٹے سے جھوٹ بول دیں تو وہ بھی بھنا جائے گا اور آپ سے مطالبہ کرے گا کہ اس کے ساتھ سچ بولا جائے، ہم میں سے ہر ایک کی حالت بھی کم و بیش یہی ہے، ہم دوسروں سے دن بھر چاہے جس قدر جھوٹ بول لیں مگر جب کوئی ہم سے جھوٹ بولتا ہے تو ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور ہم اسے ’’جھوٹا‘‘ ہونے کی گالی دے کر اس سے سچ کے طالب ہوتے ہیں۔ آپ کے اور میرے لیے یہ روزانہ کا تجربہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے لیے یہ روزانہ کا مشاہدہ تھا مگر اب مشاہدہ کرنے والے بھی تجربہ کار بن گئے ہیں، خوشی کا مقام ہے کہ ہماری قومی زندگی اتنی زیادہ سائنٹیفک بن گئی ہے، مقدار نے معیار کو فنا کردیا ہے۔ بقول جگر مراد آبادی کے ؂
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
اور سلیم احمد نے بہت دنوں پہلے پوچھ لیا تھا ؂
بجا یہ رونقِ محفل مگر کہاں ہیں وہ لوگ؟
یہاں جو اہلِ محبت کے جانشیں ہوں گے
ہمارے جھوٹ کی ہولناکی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دوسروں سے کیا اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ انسان جب تک دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے مگر اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولتا تو معاملہ ایک حد میں رہتا ہے مگر جب انسان اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہوگیا ہے اور جب انسان اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا جھوٹ اس کی شخصیت کا اصول حرکت بننے لگتا ہے اس حرکت سے برکت نہیں مزید حرکت پیدا ہوتی ہے۔ یوں انسان صرف حرکتوں کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب جھوٹ انسان کی شخصیت کا اصول حرکت بن جاتا ہے تو اس کا ایک مظہر بہت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے جھوٹ کا جواز پیش کرنے لگتا ہے یوں جھوٹ مکمل طور پر اس کی شخصیت میں مستقل طور پر سچ کی جگہ لے لیتا ہے۔
جھوٹ کی سب سے مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے، یعنی جہاں سچ کو ہونا چاہیے تھا وہاں جھوٹ ہوتا ہے اس کو یوں سمجھیے کہ جس جگہ پھولوں کا ٹوکرا رکھا ہوا ہونا چاہیے تھا وہاں غلاظت کا ڈھیر رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا سبب کیا ہے؟؟ اور جھوٹ کی نفسیات کیا ہے؟؟ یعنی انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟؟۔
ایک عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے قومی یا اجتماعی خرابی کا معاملہ بھی یہی ہے، یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب ہی سے ہوا کرتا ہے، سر کی جانب سے سڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بُرائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہل دانش میں پیدا ہوتی ہے ان میں مفکرین، فلسفی، علمائے کرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتدا میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا یہ مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا عمل اپنے پھیلاؤ کے لیے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر بُرائی کا آغاز ہمارے سر کی جانب سے ہوا ہے، ہمارے سیاست دانوں نے ہم سے جھوٹ بولا۔ شاعروں اور ادیبوں اور دانشوروں نے جھوٹ بولا، علما نے جھوٹ بولا، صحافیوں نے جھوٹ بولا، ہمیں سب نے جھوٹ کا تجربہ فراہم کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اس عمل کے ذمے دار ہیں وہی اس پر واویلا بھی کررہے ہیں۔
عوام کی اہمیت ایک خاص مرحلے پر جا کر ان اہلِ دانش سے بڑھ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اوپر سے آنے والے پیغام کو عوام ہی زندگی کا تجربہ بناتے ہیں، ہر پیغام اس وقت تک بے معنی ہوتا ہے جب تک وہ زندگی کا عام تجربہ نہ بن جائے۔ تجربے سے معاشرتی قدریں وجود میں آتی ہیں یہی قدریں معاشرے میں زندگی کا پورا منظرنامہ ترتیب دیتی ہیں۔
جب کوئی پیغام تجربے میں ڈھل جاتا ہے تو اس کی گوناگوں صورتیں ظاہر ہوتی ہیں کیوں کہ ہر انسان ایک خاص پیغام کو ایک خاص طریقے سے قبول کرکے اسے اپنی داخلیت کا حصہ بناتا ہے۔ عوام اہلِ دانش کے پیغام ہی سے نہیں بلکہ ان کے عمل کے سانچے سے بھی اثر قبول کرتے ہیں اگر اوپر کی سطح پر پیغام اور عمل کا سانچہ پیچیدہ ہو تو وہ عوامی تجربہ بنتے بنتے اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہ تو تھا جھوٹ کا اجتماعی معاملہ تاہم انفرادی سطح پر یہ صورت حال کچھ دوسرے محرکات کے باعث ظہور پزیر ہوتی ہے اس صورت حال کا تجزیہ ذیل میں آرہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میرے خیال میں جھوٹ اور ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کا عکاس ہوتا ہے اس کے برعکس سچ واضح اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی ذہن تہہ در تہہ ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو جواز فراہم کرنے کے لیے اسے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے، دوسرے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے تیسرا جھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ صورت حال ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے آغاز کہیں نہیں ہے۔
اس کے برعکس سچ کا معاملہ آفتاب آمد دلیل آفتاب والا ہوتا ہے، اسے مخصوص معنوں میں کسی جواز، کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کا کوئی جواز ہوتا بھی ہے تو وہ اس کے سہارے کے لیے نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے پل (Bridge) کے طور پر موجود ہوتا ہے بلکہ یہ جواز اس سچ کی کوئی بہت معمولی جہت ہوتی ہے جو پل کا کام انجام دے کر نمایاں اور معتبر ہوجاتی ہے۔
جھوٹ کی اندرونی جہت نہیں ہوتی اس کمی کو وہ خارج میں بہت زیادہ پھیلاؤ اختیار کرکے پُر کرتا ہے۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ معیاری (Qualitative) نہیں بلکہ مقداری (Quantitative) ہوتا ہے، چوں کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اس لیے یہ سچ کے معمولی دباؤ کو برداشت نہیں کرپاتا، شاید اسی لیے ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یہ جتنی برق رفتاری سے پھیلتا ہے اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ فنا ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہوتی ہیں لیکن میرے خیال میں دو وجوہ کو ہم بنیادی وجوہ کہہ سکتے ہیں۔
-1 ناکافی (Inadequate) ہونے کا احساس
-2 ذمے داری سے بچنے کی خواہش
میرے نزدیک جب کوئی انسان اپنے آپ کو کسی خاص صورت حال میں ’’ناکافی‘‘ محسوس کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس صورت حال میں ’’کافی‘‘ بنانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، ہر انسان بیک وقت کئی اقسام کے ماحول اور صورتِ حال میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر
-1 علمی صورتِ حال
-2 معاشی صورتِ حال
-3 سماجی صورتِ حال
-4 سماجی مرتبے کی صورتِ حال
-5 خاندانی صورتِ حال
-6 جسمانی خصوصیات کی صورتِ حال وغیرہ
ان صورتوں میں اعلیٰ اور ادنیٰ کے کچھ معاشرتی پیمانے مقرر ہوتے ہیں۔ (یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج کے معاشروں میں یہ پیمانے حد درجہ جعلی ہوتے ہیں) ہر انسان ان صورتوں میں سے کسی خاص صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے شخص یا اشخاص کے سامنے اپنے آپ کو اسی صورت کے حوالے سے ناکافی محسوس کرتا ہے۔ ناکافی ہونے کا احساس اس کے اندر احساس کمتری پیدا کرتا ہے، اکثر لوگ اپنے ناکافی پن کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کے باعث وہ جھوٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کافی ثابت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)