بغیر دھو یں کے تمبا کو کا استعمال

301

ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی ایک خبر کے مطابق خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور نے معاشرے میں بغیر دھویں کے تمباکو کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کے شدید مضر اثرات پر قابو پانے کے لیے دو تحقیقی منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ منصوبے “Smokeless Tobacco Control in اورPakistan-STOP ” “Addressing Smokeless Tobacco Use and Building Research Capacity in South Asia-ASTRA” کے دو الگ الگ عنوانات کے تحت شروع کیے گئے ہیں۔ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاپ منصوبہ لا ئبنیز انسٹی ٹیوٹ فار پریوینشن ریسرچ جرمنی کے اشتراک اور جرمنی اکیڈمک ایکسچینج سروس کے مالی تعاون جبکہ آسٹرا کا منصوبہ گیارہ ممالک جن میں بھارت، بنگلا دیش، برطانیہ اور پاکستان قابل ذکر ہیں کی مختلف جامعات پر مشتمل گلوبل ہیلتھ ریسرچ کنورشیم کے اشتراک اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ برطانیہ کے مالی تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔ پاکستان سے اس منصوبے کو آغا خان یونیورسٹی کراچی کا تکنیکی تعاون حاصل ہے۔ واضح رہے کہ ان دونوں منصوبوں کی نگرانی کے ایم یو کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر زوہیب خان جنہوں نے حال ہی میں جرمنی سے اپیڈیمالوجی اور بائیو اسٹیٹسٹکس میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ہے کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی سے ان کے دیگر معاونین میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید کی سرپرستی کے علاوہ کے ایم یو کے ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، ڈاکٹر نسیم خان، ڈاکٹر فیاض احمد اور ڈاکٹر ذیشان کبریا شامل ہیں۔ ان دونوں منصوبوں کا مقصد جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان میں بغیر دھویں کے تمباکو کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نقصانات اور معاشرے پر اس کے مضر اثرات کا جائزہ لیکر ان اثرات کے سدباب کے لیے تجاویز اور پالیسی وضع کرنا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں دھویں کے بغیر تمباکو کی دیگر شکلوں مثلاً نسوار، پان اور گٹکا کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ بغیر دھویں کے تمباکو کے بکثرت استعمال کرنے والوں میں کینسر کا باعث بننے والے تیس مضر اثرات (ایجنٹس) پیدا ہونے کے خدشات سامنے آئے ہیں۔ جنوبی ایشیاء اور خاص کر پاکستان میں نسوار، پان اور گٹکے کے استعمال کو معاشرتی پزیرائی ملنے، اس حوالے سے واضح اور موثر قوانین نہ ہونے نیز ان اشیاء کی ٹیکس نیٹ سے مبرا ہونے کے باعث تمباکو کی ان تمام اجناس کی معاشرے میں بہ سہولت اور ارزاں نرخوں پر دستیابی ایسے عوامل ہیں جن کے باعث نہ صرف ان کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ ان کے مضر اثرات سے کینسر کی مختلف اقسام میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی کل آبا دی کا تیرہ فے صد بغیر دھویں کے تمباکو استعمال کر رہی ہے جبکہ برصغیر پاک و ہند میں تین سو ملین افراد جن میں ہر جنس وعمر کے افراد شامل ہیں جو بغیر دھویں کے تمباکو کی حامل مضر صحت اشیاء مثلاً نسوار، پان اور گٹکا استعمال کر رہے ہیں۔ ممتاز ماہرین طب اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین امراض سینہ و دمہ نے کے ایم یو میں ان دو منصوبوں کے آغاز کو خوش آئند قرار ادیتے ہوئے کہا ہے کہ ان منصوبوں سے اگر ایک طرف بغیر دھویں کے تمباکو کے استعمال کے بڑھتے ہوئے مضر اثرات کے بارے میں عوامی سطح پر بیداری اور آگہی پیدا ہوگی تو دوسری جانب اس سے معاشر ے میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نسوار، پان اور گٹکے کا استعمال انسانی زندگی کے لیے اتنا ہی خطرناک اور جان لیوا ہے جتنا سگریٹ اور تمباکو کی دیگر اشکال کے استعمال سے جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دراصل بغیر دھویں کے تمباکو سے بنی مضر صحت اشیاء کے استعمال کا بڑھتا ہوا رحجان ہمارے ہاں ایک معاشرتی ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا سدباب ہم سب کی معاشرتی، اخلاقی اور قومی ذمے داری ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کے ایم یو کے ریسرچ ڈائریکٹریٹ نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید جو خود بھی نہ صرف پاکستان چیسٹ سوسائٹی کے بانی صدر ہیں بلکہ ایک مایہ ناز اور کہنہ مشق ماہر امراض سینہ اور دمہ کی شہرت رکھتے ہیں کی نگرانی اور راہنمائی میں اس اہم مسئلے پر تحقیق کا آغاز کرکے ایک گراں قدر قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی کیوں کہ بغیر دھویں کے تمباکو کی حامل مضر صحت اشیاء کا استعمال ہمارے ہاں جس بے دریغ انداز میں ہورہا ہے وہ یقیناًپوری قوم کے لیے باعث تشویش ہے۔