ایک بیانیہ ہی تو ہوتا ہے

266

گزشتہ دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو مسلم لیگ کے جلسوں میں کمپیئرنگ کرتے رہے ہیں، بڑی بھلی آواز ہے اور زور دار گرج بھی، اسی لیے متعدد آڈیشن کے بعد مسلم لیگ کے جلسوں کے لیے مریم نواز نے ان کا انتخاب کیا، کہتے ہیں کہ مسلم لیگ بہت متحرک ہے، موارال بھی اپ تھا لیکن ڈان لیکس ٹو کے بعد پریشانی نے گھیر لے لیا ہے۔ صورت حال اس کے لیے مشکل بھی ہے اور چیلنج بھی، پرندے تیار بیٹھے ہیں، گھونسلے خالی ہونے جارہے ہیں، مسلم لیگی بھی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی ہی جماعت کو الیکشن سے قبل اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اس کے موجودہ ارکان اسمبلی روزانہ کی بنیاد پر کسی دوسری جماعت کو جوائن کر رہے ہیں یا آزاد حیثیت میں اگلا الیکشن لڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پنجاب میں یہ صورت حال پچھلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو درپیش تھی جب اس کے ارکان اسمبلی تیر کے نشان کے بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اس الیکشن میں معاملات کو بہتر کر لیا ہے مگر مسلم لیگ ن کے بڑوں نے موجودہ صورت حال کو ابھی تک سیریس نہیں لیا سوائے میاں شہباز شریف کے مگر وہ بھی میاں نواز شریف کی مخالفت کا رسک نہیں لے سکتے، سو اگلی مخدوش صورت حال کا نقصان انہیں بھی اٹھانا پڑے گا۔
عام انتخابات سے قبل روزانہ بدلتی ہوئی سیاسی اور ملکی صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے اندر بد دلی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے اور بعض ایسے مسلم لیگی ارکان اسمبلی اور وزرا بھی دوسری جماعتوں کا رخ کرنے کا سوچ رہے ہیں جنہوں نے اقتدار کے مکمل مزے لوٹے ہیں۔ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ بہتر ہے کہ الیکشن ہی نہ لڑا جائے اور وہ کسی دوسری جماعت میں جانے کے بجائے مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے سے معذرت کر کے گھر بیٹھ جائیں اور تیل دیکھیں، تیل کی دھار دیکھیں مسلم لیگی کہتے ہیں کہ نااہلی کے بعد نواز شریف کے پاس کھونے کو اب کچھ نہیں رہا اور وہ اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں جب کہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس صورت حال سے بہت زیادہ پریشان ہیں، ان کی پنجاب اسپیڈ کو بریک لگی ہوئی ہے، انہیں علم ہے کہ دو ہفتے بعد جب وہ اقتدار سے باہر ہوں گے تو وہ حالات انہیں ابھی سے ناموافق محسوس ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ تھانہ کلچر تو اس ملک کا وہی ہے وہ تو نہیں بدلا، جو سپاہی سلیوٹ کرتے ہیں وہی ہتھکڑی لگاتے ہیں اور ہانکتے ہوئے جیل لے جاتے ہیں، پنجاب میں ترقی کا بہت شور ہے، لیکن ماحولیات کا شعبہ لے لیں، کسی صوبے نے کام نہیں کیا، تعلیم، صحت، سماجی بہبود سب کے ورق پلٹ لیں کچھ نیا نہیں ملتا، اٹھارویں ترمیم سے متاثرہ سرکاری ملازمین پریشان ہیں کہ صوبوں کو جانے والے محکمے آپس میں ضم ہوں، یا ان کی تنظیم نو تو ان کی ترقی کے لیے کوئی لسٹ بنے ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے شہباز شریف کو بہت سے محاذوں پر اکیلے لڑنا ہوگا۔
معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگی ارکان اسمبلی کی بہت زیادہ تعداد نواز شریف کی موجودہ سیاست سے نالاں ہے اور وہ اپنے لیے مسلم لیگ سے نکلنے کے لیے کسی محفوظ راستے کی تلاش میں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی موجودہ اسمبلیوں کی مدت باقاعدہ ختم ہونے کے انتظار میں ہیں اور وہ اکتیس مئی کے فوری بعد مسلم لیگ کی کشتی سے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں گے لیکن کہاں جائیں گے، تحریک انصاف میں؟ جہاں ہر روز جگہ پر ہوتی جارہی ہے مسلم لیگی ارکان اسمبلی پریشان ہیں، سوچ رہے ہیں کہ کوئی تو ہو جو ان سے خود رابطہ کرے نواز شریف کے موجودہ طرز سیاست پر پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ کو جو نقصان نواز شریف کے موجودہ بیانیے سے ہوا ہے اس کا ادراک میاں شہباز شریف کے ساتھ ساتھ پنجاب سے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو ہو چکا ہے اس لیے ان کی پریشانی بھی دیدنی ہے۔ ان ارکان اسمبلی کے مطابق نواز شریف کے موجودہ بیانات سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسرے ادارے کو تو ٹکر مار ہی رہے ہیں مگر عوام میں بھی اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہے ہیں۔ خصوصی طور پر ان کے درپردہ فوج مخالف بیانات بھارت اور پاکستان دشمن اداروں کے لیے خوشی کا باعث بن رہے ہیں اور پاکستانی ایسے لوگ بھی اس پر ناخوش ہیں جو مسلم لیگ کے بڑے وفادار سمجھے جاتے تھے۔ دوسری طرف نیب اور عدلیہ کی طرف سے کرپٹ سیاست دانوں اور ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات کے بعد ایسے عناصر کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں میں بھی تیزی آ رہی ہے مگر انہیں کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔ میرے خیال میں مسلم لیگ (ن) کی کشتی اپنے ہی ملاح کے ہاتھوں طوفانی بھنور کا شکار ہو چکی ہے جہاں سے اس کا نکلنا محال ہے۔