یوٹیلٹی اسٹورز سے اشیا غائب

275

حکومت کی جانب سے رمضان المبارک کے آغاز میں یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے ایک ہزار اشیا کے لیے رعایتی پیکیج ا اعلان کیا گیا تھا جس کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے لیکن دو دن میں ہی صورتحال واضح ہوگئی کہ لوگوں کی ضرورت کی اشیا تو یوٹیلٹی اسٹورز سے ناپید ہیں۔ رمضان المبارک میں ضرورت کی اشیا تو آٹا، تیل، بیسن، دالیں، گھی، کھجور وغیرہ ہوتی ہیں لیکن بہت سے اسٹورز پر ان اشیا کی آمد کے ساتھ ہی بڑے دکاندار تھوک کے حساب سے یہ اشیا خرید کر لے جاتے ہیں اور عام آدمی جو صبح سے چینی، گھی یاتیل کے لیے لائن میں لگا ہوتا ہے وہ اگلے دن کے وعدے پر ٹرخادیاجاتا ہے۔ حکومت نے ایک ارب 73 کروڑ کی جو سبسڈی دی ہے اگر یہ سبسڈی صرف آٹا، تیل، بیسن، دودھ، شکر، کھجور، چاول وغیرہ پر دی جاتی تو ان اشیا کی قیمتوں میں اور فرق آجاتا۔ لیکن وہ کون سی نامعلوم ایک ہزار اشیا ہیں جن کی قیمتوں پر سبسڈی دی گئی ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ عوام کو رمضان میں بسکٹ، ٹوتھ برش، شیونگ کریم کی نہیں آٹے، دال، دودھ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اشیا اول تو دستیاب نہیں ہوتیں اور اگر موجود ہوں تو دکاندار یا اسٹور والوں کے جاننے والے لے جاتے ہیں۔ یہ اطلاع ہے کہ بعض بڑی کمپنیوں نے یوٹیلٹی اسٹور سے ادائیگی نہ ہونے کے سبب اشیا کی فراہمی بھی بند کردی ہے۔ تو پھر حکومت کیا کررہی ہے۔ کمپنیوں کو ادائیگی تو یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی ذمے داری ہے یہ کام نہیں ہوگا تو مال کون دے گا۔ اگرچہ اسٹورز حکام نے یہی کہا ہے کہ دکانداروں کو بڑی مقدار میں سامان خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن وہاں کون یہ لکھواکر لے جاتا ہے کہ میں دکاندار ہوں۔ اصل بات تو اسٹور کی انتظامیہ کی ملی بھگت ہے۔