سبیکا شیخ اور سوال ہی سوال

463

امریکا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی انتہا پسندی اور مقبول ہوتے ہوئے گن کلچر نے نو امریکیوں کے ساتھ ایک پاکستانی بچی کی جان بھی لے لی۔ سترہ سالہ سبیکا شیخ گزشتہ سال اگست میں کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا گئی تھی اور وہاں ٹیکساس ہوسٹن کے ایک اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ ایک طالب علم نے کلاس روم میں گھس کر دس افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں حصول علم کی غرض سے جانے والی پاکستانی بچی بھی شامل تھی۔ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا مگر اسے اپنے فعل پر کسی قسم کی شرمندگی اور ندامت نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ زندہ بچ جانے والوں کو اس لیے چھوڑا گیا کہ وہ باقی لوگوں کو اس واقعے کی کہانیاں سناتے رہیں۔ ایک پاکستانی طالبہ جو ڈگری کا خواب لیے دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریہ گئی تھی تابوت میں بند ہو کر واپس لوٹی۔ اس بچی کے والدین کے خوابوں اور عذابوں کا حساب اور سوالوں کا جواب کون دے گا؟۔ بہت دلچسپ بات یہ کہ قاتل کو امریکی میڈیا نے عیسائی دہشت گرد اور عیسائی انتہا پسند قرار نہیں دیا۔ اگر یہ فعل کسی مسلمان لڑکے نے انجام دیا ہوتا تو اس وقت امریکی میڈیا مسلمان دہشت گرد اور مسلم انتہا پسند کی اصطلاح استعمال کرکے آسمان سر پر اُٹھا چکا ہوتا اور امریکا سمیت دنیا بھر کے مسلمان گھبراہٹ اور خوف سے سہم کر رہ گئے ہوتے۔ ان کی مثال کٹہرے میں کھڑے کسی مجرم سے کم نہ ہوتی جس پر میڈیا یک طرفہ جرح کررہا ہوتا اور وہ گردن جھکائے اپنے ناکردہ جرائم اور گناہوں کو خاموشی سے قبول کرنے پر مجبور ہوتا۔ دنیا میں جاری دہشت گردی کی واردتوں اور انتہا پسندی کی لہروں کے ساتھ یہ متضاد سلوک اور رویے ازخود بہت سی قباحتوں اور منفی سوچوں کو جنم دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ کہ امریکا اس وقت بزعمِ خود دنیا کو پرامن اور دہشت گردی سے پاک بنانے کا مناد ومبلغ اور علم بردار بن کر سامنے آرہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی امریکا کو دہشت گردوں کا شائبہ اور دہشت گردی کے اسباب کا اندازہ ہوجائے وہ اپنا پاندان لیے اس کے خاتمے کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے لیے کبھی اقوام متحدہ کی رسمی منظوری کا تکلف فرماتا ہے اور کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ امریکی ایما پر اقوام متحدہ اور خود امریکی ڈونر ادارے ملکوں کے نصاب تعلیم کا ایکسرے کرتے ہیں کہ مبادا اس نصاب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پیدا کرنے والے جراثیم اسباب وعوامل موجود نہ ہوں۔ اگر کسی ملک کے نصاب تعلیم میں اس طرح کے مضر اثرات پائے جاتے ہوں تو حیلوں بہانوں سے نصاب کی کتابوں سے یہ ’’متنازع‘‘ سطور کھرچ لی جاتی ہیں۔ ان کاوشوں کا مقصددنیا کو آزاد خیال، لبرل، متوازن اور برداشت کا حامل بنانا بتایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ دنیا میں بہت سی جگہوں پر اس مہم کا مثبت اثر پڑا ہو اور وہ معاشرہ انتہا پسندی کی راہوں پر لڑھکنے کے بجائے امن اور برداشت کے راستوں پر لوٹ آیا ہو۔ خود امریکا کا حال کچھ اچھا نہیں جہاں عدم برداشت معاشرے کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے ساتھ شامل ہوتا جا رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکی میڈیا نے جو اسلاموفوبیا پیدا کیا ہے اس بیج کی فصل اب ذہنوں میں لہلہانے لگی ہے۔ آئے روز مسلمانوں پر ہونے والے نسل پرستانہ حملے اسی فصل کا ثبوت ہیں۔ دنیا کو امن اور برداشت دینے والے امریکا میں گن کلچر تیزی سے فروغ پزیر ہے اور نوخیز جوانیاں اور ذہن تیزی سے اس کلچر کی زد میں آرہے ہیں۔ اس جنونیت کا شکار اکثر طالب علم اور اس کی منزل تعلیمی ادارے بنتے ہیں۔ اسی لیے وقفے وقفے سے کسی تعلیمی ادارے یا پبلک مقام پر کوئی مقامی جنونی انسانوں کا خون بہاتا ہے اور چند دن امریکی میڈیا سوگ مناتا ہے اور اس کے بعد ایک اور سانحے کا انتظار رہنے لگتا ہے۔ ہوسٹن کے واقعے کو الٹا دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ واقعہ پاکستان میں کسی امریکی کے ساتھ رونما ہوتا تو امریکی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مرکز ثابت کرنے اور مسلمان دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرکے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنامی کا اشتہار بنا کر رکھ چھوڑ ہوتا۔ ان واقعات میں امریکا کے لیے سبق پوشیدہ ہے کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو کسی ملک اور مذہب کے ساتھ جوڑنے کے بجائے اس حقیقت کا اعتراف کرے کہ انتہا پسندی آج کی دنیا کا عمومی چلن ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ بالی ووڈ میں بیٹھا کوئی ’’چارلی ولسن‘‘ کسی اسلحہ ساز کمپنی کے ماڈل کے طور پر کام تو نہیں کررہا؟۔ چارلی ولسن وہی کردار ہے جو چترالی ٹوپی اور واسکٹ پہن کر اور گھوڑے کی باگیں تھامے مغرب میں افغان جہاد کو امریکی مفادات کے تحت گلیمرائز کرتا تھا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت امریکا دنیا کی غالب تہذیب ہے۔ اس کا کلچر، رویے، رواج اور نظریات دنیا میں ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں یہ انسانی فطرت ہے۔ امریکا کو پاکستانی مدرسوں میں تانک جھانک کرنے، افغانستان کے گھروں میں سن گن لینے اور ایران کی ڈیوڑھی پر دور بینیں نصب کرکے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے اپنے گھر کی بھی کچھ خبر لینی چاہیے۔ دنیا کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک کرتے کرتے کہیں امریکا خود انہی لہروں کی زد میں تو نہیں آرہا؟۔ دور دیسوں کی آگ بجھاتے بجھاتے وہ اپنے دامن میں ایسی ہی چنگاریوں کو سمیٹے ہوئے تو نہیں؟۔ کہیں اس کی صفوں میں پھر کوئی چارلی ولسن تو موجود نہیں؟۔ جس گن کلچر نے امریکیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اُٹھائے جاتے؟۔ گن کلچر میں ایک پاکستانی بچی کی جان چلی گئی اور کوئی پوچھے یا نہ پوچھے ہمیں تو قدرت نے یہ سوال پوچھنے کا موقع دے دیا ہے۔