نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ کرنے کا مقصد انتخابات کا التوا ہوسکتا ہے

253

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان مستعد نظر آرہا ہے تاہم الیکشن لڑنے والی ملک کی حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کی پیپلز پارٹی ان انتخابات کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ خصوصا مسلم لیگ نواز کی کوشش اور خواہش ہے کہ موجودہ جمہوری دور کی مدت آخری دن یعنی 31 مئی سے آگے بڑھ جائے لیکن یہ خواہش اس لیے ممکن نہیں ہوسکتی کہ اس کے لیے پیپلز پارٹی کا باآسانی آمادہ ہونا مشکل ہے تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کسی طرح راضی ہوجائے تو مسلم لیگ نواز موجودہ دور کی مدت میں کم ازکم نو ماہ کا اضافہ کرنا چاہے گی۔اس مقصد کے لیے اسے پہلے کابینہ اور پھر اسمبلی سے قومی اسمبلی سے قرار داد منظور کرانا ہوگی۔ لیکن اس بارے میں منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی طے شدہ ملاقات میں ہونے والی گفتگو اور نگران وزیراعظم کے لیے نام پر اتفاق سے ہوسکے گا۔ خیال ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کی طرح نگراں وزیراعظم پر اتفاق نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کو خود نگراں وزیراعظم نامزد کرنے کا اختیار آئین کے تحت مل جائے گا۔ لیکن یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت موجودہ جمہوری دور کی مدت میں توسیع کرنے کے بجائے وقت پر اسمبلیاں ختم کرنے پر راضی ہوجائے۔ رواں دور میں توسیع کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے نمائندہ جسارت کے استسفار پر بتایا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ائینی مدت میں ایک سال تک اضافہ کرسکتی ہے لیکن اس مقصد کے لیے اسے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ ایمرجنسی کے لیے وزیراعظم صدر مملکت کو سمری بھیجتا ہے۔ یہ سمری حکومت کی جانب سے مدت ختم ہونے سے ایک روز پہلے تک بھی بھیجی جاسکتی ہے۔ تاہم ایمرجنسی کے نفاذ اور کے بعد حکومت کی موجودہ مدت کو ایک سال تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ خیال ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت آئندہ دو روز میں نگراں وزیراعظم کے نام پر فیصلہ نہیں کرسکی تو امکان ہے کہ وہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آپشن پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت خود اسمبلیاں ختم کرے گی تو پھر 3ماہ کے اندر انتخابات کرانے ہوتے ہیں لیکن اگر رواں دور کے آخری روز آئین کے تحت اسمبلیاں ختم کی گئیں تو پھر 60 دن میں انتخابات کرانے ہوتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ کرکے اور الیکشن کمیشن کو نگراں وزیراعظم بنانے کا اختیار دیکر مبینہ طور پر بعض سیاسی فائدے اٹھانا چاہتی ہے جس کا براہ راست اثر عام انتخابات پر بھی پڑھ سکتا ہے اور ان انتخابات کو متنازع بھی بنایا جاسکتا ہے۔