بحریہ ٹاؤن کے خلاف ڈھیلی ڈھالی تحقیقات

341

خدا خدا کرکے نیب نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی، لاہور اور کراچی کے مختلف منصوبوں کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ نیب نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ متاثرین کی درخواستوں پر کارروائی کی جارہی ہے۔ ابتدائی طور پر تمام فریقوں کو نوٹس بھجوائے جائیں گے۔ اس کے بعد آئندہ کارروائی کا فیصلہ ہوگا۔ نیب کے اعلامیے میں عدالت عظمیٰ کے احکامات کا ذکر نہیں بلکہ اس کا ذکر آگے چل کر آیا کہ نیب نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر یہ قدم اٹھایا ہے لیکن یہ کیسی تحقیقات ہے کہ اس میں اشارہ دے دیا گیا ہے کہ یہ کسی بھی وقت روکی جاسکتی ہے۔ اول تو تمام فریقوں کو نوٹس بھجوانے میں کئی ہفتے لگیں گے اور جب نوٹس وصول ہوتے ہیں تو ان کے لیے بھی سات یوم 15 یا 28 یوم کی کوئی مدت ہوتی ہے کہ اس عرصے میں جواب دیں۔ یقینی طور پر جواب دینے والے پہلے جواب میں ہی وقت مانگ لیں گے۔ لیکن نیب کی خبر میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اگر بحریہ ٹاؤن نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کردی تو تحقیقات روکی جاسکتی ہے۔ اگر اربوں روپے کی زمینیں ہڑپ کرنے والوں کے ساتھ نیب کی جانب سے نرمی اور وقت دینے کے معاملے میں فیاضی کا یہ رویہ ہے تو پھر عوام کو ریلیف کبھی نہیں مل سکے گا۔ نیب کے حوالے سے پہلے ہی کہا جارہاہے کہ اس کے معیارات دوہرے ہیں۔ طاقت ور کے لیے کچھ اور پیمانے ہیں اور کمزوروں کے لیے کچھ اور۔ اگر فریقوں کو نوٹس دینے اور جواب لینے کے چکر میں پڑگئے تو سارا وقت انتظار میں نکل جائے گا۔ نیب سیدھا سیدھا بحریہ ٹاؤن سے یہ معلوم کرے کہ اس کو کتنی زمین کس طرح اور کس نے الاٹ کی ہے اور بحریہ ٹاؤن نے کتنی زمین پر پروجیکٹ اعلان کر رکھے ہیں۔ اصل خرابی تو وہاں ہے فریقوں کو نیب طلب کرکے ان کی درخواستیں وصول کرلی جائیں جس وقت مقدمے کی کارروائی ہوگی اس وقت انہیں جرح اور ثبوت کے لیے طلب کرلیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی زمینوں اور قبضوں پر سوال اٹھایا ہے فریقین یا شکایات کرنے والوں پر نہیں۔ کراچی میں پورے شہر کا نظام بحریہ ٹاؤن کی وجہ سے تلپٹ ہوگیا ہے۔ کراچی کا پانی بحریہ کو، بجلی بحریہ کو، زمین بحریہ کو، شہری سہولیات بحریہ کی طرف منتقل۔ جب شہر کا پانی کاٹ کر کسی اور منصوبے کو دے دیا جائے گا تو شہر میں کیا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے اس بنیاد پر شہر میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی لگائی تھی کہ اتنی بڑی عمارتوں اور منصوبوں کے لیے پانی نہیں۔ لیکن شہر کا پانی تو بحریہ ٹاؤن کو دیا جارہاتھا۔ ویسے ماہرین کا کہناہے کہ میلوں پھیلے منصوبے کے لیے پانی کی فراہمی مشکل ہوتی ہے اور کثیر المنزلہ عمارتوں کے لیے آسان ہوتی ہے۔ تاہم اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی زمینوں اور الاٹمنٹ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے تو نیب بھی سیدھی طرح تحقیقات کرے۔ یہ تحقیقات کرنے کا فیصلہ اور پھر طویل وقت ضائع کرنے کا منصوبہ تو بحریہ ٹاؤن کی مدد کے مترادف ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے خلاف جو شکایات آتی ہیں وہ خود ایک الگ اسکینڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک شخص کی شکایت آباد کی ویب سائٹ پر ہے کہ اس نے نیا مکان خریدا اور چھ ماہ میں پہلی ہی بارش میں مکان گر گیا آج تک اس کا معاوضہ ملا نہ مکان بناکر دیا گیا۔ کئی لوگوں کی فائلیں جعلی نکلیں۔ کسی کی فائل پر پہلے ہی خرید و فروخت ہوچکی ہے۔ اب خود ہی وکیلوں اور لا کمپنیوں کا جال بچھاکر متاثرین کو گھیر لیا ہے کہ آیئے بحریہ کے خلاف ہم آپ کا کیس لڑیں گے۔ اس طرح کیس کسی اور جگہ جانے بھی نہیں دیا جارہاہے۔ نیب عدالت عظمیٰ کی ہدایات سے انحراف نہ کرے اور اصل معاملے کی تحقیقات کرے۔