آہ سبیکا شیخ، تم نے تو بڑا کام کر دکھایا 

359

اب تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ امریکا انسانوں خصوصاً معصوم طالب علموں کے لیے غیر محفوظ ہے۔ وہاں ایک سال کے دوران اسکولوں پر فائرنگ کے 23 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ 17 سالہ غیر معمولی ذہنی صلاحیت رکھنے والی میرے پاکستان کی بیٹی سبیکا شیخ وہاں تعلیم حاصل کرنے گئی تھی۔ اسے 10 جون کو اپنے گھر گلشن اقبال کراچی پہنچنا تھا مگر یہ کیا اس کی لاش یہاں پہنچائی جائے گی۔ سبیکا کا جسد خاکی منگل بدھ کی درمیانی شب کراچی پہنچنے کا امکان ہے۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو ممکن ہے عزیز شیخ کی لخت جگر کو منوں مٹی سپرد کردیا گیا ہوگا۔
سبیکا کے بارے میں بہت طویل لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے کیوں کہ میں بھی ایک سبیکا کا باپ ہوں۔ میں تصور نہیں کرسکتا کہ نعیم شیخ کس طرح یہ صدمہ برداشت کررہے ہوں گے؟ کہاں سے ان کو یہ ہمت ملی ہوگی۔ میں اور مجھ جیسے کروڑوں لوگ معصوم سبیکا کے والدین، بہن بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے محض دلاسے دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ مگر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر اور ڈی ایم سیز کے چیئرمین معید انور، ریحان ہاشمی، نیئر زیدی سے گزارش کروں کہ سبیکا کی تدفین سے قبل کسی سڑک یا محلے کا نام سبیکا کے نام سے منسوب کردیا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ سبیکا نے امریکا جاکر بھی پاکستان کا نام روشن کیا اس مقصد کے لیے پاکستانیوں کا بااخلاق اور ملنساری کا روپ سب کے سامنے عیاں کیا۔
ہوسٹن سٹی کے میئر کا یہ کہنا کہ: ’’سبیکا ہم سب کی بیٹی تھی اس نے یہاں رہ کر اپنے طرز عمل سے پاکستان اور پاکستانیوں کا وقار بلند کیا تھا‘‘۔
سبیکا تو ہنستے مسکراتے اور پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئی لیکن یہاں سے جاتے ہوئے اس نے پوری دنیا کے سامنے امریکا چہرہ بے نقاب کردیا۔ دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والے امریکا میں اسکولوں کی سیکورٹی بھی ناقص ہے وہاں طلبہ وطالبات اور اساتذہ غیر محفوظ ہیں۔ سبیکا شیخ جس واقعہ میں جاں بحق ہوئی وہ محض 17 سالہ لڑکے کے ہاتھوں رونما ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی پولیس ایک تن تنہا 17 سالہ دہشت گرد کو واردات سے قبل گرفتار کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی لیکن دعوے بڑے بڑے کیے جاتے ہیں۔
دن دہاڑے کی جانے والی اس واردات سے یہ بات پر واضح ہوئی کہ امریکا میں کم عمر بچوں کو خطرناک اسلحہ رکھنے اور اسے استعمال کرنے کی بھی آزادی حاصل ہے۔ جب کہ وہاں اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں اتشیں اسلحہ بآسانی لے جایا جاسکتا ہے۔ کوئی انہیں چیک کرنے والا موجود ہوتا ہے اور نہ ہی ایسے خطرناک آلات چیک کرنے کا کوئی نظام ہے۔ ان حالات میں اسکولوں گن شوٹنگ کے پورے سال میں 23 واقعات ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ جس ملک میں کم عمر افراد اسلحہ تک رسائی ہی نہیں بلکہ اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک آسانی لے جانے کی صلاحیت ہو وہاں ماہانہ نہیں بلکہ روزانہ بھی ایسے خطرناک حادثات رونما ہوسکتے ہیں۔
جب ایک نامور اسکول ’’سنٹا فے ہائی اسکول‘‘ (Santa Fe High School) میں ایسا خونیں واقعہ رونما ہوسکتا ہے تو وہاں کے عام اسکولوں اور عمارتوں کے تحفظ کے انتظامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا پوری دنیا کے تحفظ کی باتیں اور دعوے کرتا ہے ساتھ ہی مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرتا ہے مگر خود وہ اپنے کم عمر لڑکوں سے اسلحہ نہیں چھین سکتا۔
راقم نے بہت ہمت کرکے شہید بیٹی سبیکا کے باہمت والد سے بات کی انہوں نے بتایا کہ: ’’امریکا میں گن کے لیے کوئی قانون نہیں ہے وہاں آپ 16، 17 سال کے بچے کو سگریٹ نہیں فروخت کرسکتے مگر گن بیچ سکتے ہیں، وہاں بغیر لائسنس کے گاڑی نہیں چلاسکتے مگر گن چلا سکتے ہیں، میں ٹرمپ انتظامیہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہاں اسلحہ کے آزادانہ استعمال کو روکنے کے لیے قانون بنایا جائے اور اس قانون کا نام ’’سبیکا لا‘‘ رکھا جائے‘‘۔ عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ: ’’امریکا میں مقیم ہماری قونصلر جنرل عائشہ فاروقی نے ان سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ آپ کی بیٹی سبیکا نے وہ کام کردیا جو ملکوں کے سفیر برسوں میں نہیں کرسکے، اس نے نہ صرف امریکا کے قوانین پر سوال اٹھا دیا بلکہ بڑے ایشو کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی دیکر اسے واضح کردیا، آپ کی بیٹی نے اپنی خوش اخلاقی سے امریکا اور پاکستان کو قریب لانے کے لیے بھی بڑا کردار ادا کیا‘‘۔
عزیز شیخ اس بیٹی کے والد ہیں جس کے خواب ہمیشہ پاکستان کو روشن کرنے اور اس کا نام بلند کرنے کے تھے وہ امریکا اسی نیت سے گئی تھی۔ مدر ڈے کے موقع پر سبیکا نے اپنی میزبان خاتون کو تحفہ دیا تو ان سے کہا کہ: ’’یہ آپ کے لیے میری اور پورے پاکستان کی طرف سے ہے‘‘۔غم سے نڈھال عزیز شیخ نے بتایا کہ میری بیٹی بدھ کو میرے پاس آجائے گی پھر میں اسے رخصت کرنے کے لیے بیت مکرم مسجد سے متصل گراونڈ میں نماز کے لیے لے جاؤں گا جہاں سے اسے اپنی امی مرحومہ کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دوں گا جہاں وہ اپنی دادی کے ساتھ تاقیامت رہے گی‘‘۔ اللہ سبیکا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے اور ان کے والدین و بہن بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔