مجھے امریکی سفارت کاروں سے بچاؤ

264

بابا الف کے قلم سے
پاکستان میں مرنے کی ویسے تو بہت سہولتیں دستیاب ہیں۔ تازہ اضافہ امریکی سفارت کار ہیں۔ پرانی مثل ہے ’’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘‘۔ اب کہا جاسکتا ہے ’’مجھے امریکی سفارت کاروں سے بچاؤ۔‘‘ گزشتہ ماہ کی سات تاریخ کو امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کرنل جوزف نے ٹریفک کی بتی کا اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی طالب علم عتیق کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماردی جس کے نتیجے میں وہ طالب علم جاں بحق جب کہ اس کا ساتھی زخمی ہوگیا۔ بیمہ کمپنیوں کو بے وقت کی موت کی متعدد صورتوں میں اس صورت کا بھی اضافہ کرلینا چاہیے۔ اس قسم کے واقعات کا امریکا سے شکوہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے شرارتی بہن بھائیوں کی ماں سے شکایت کرنا۔ امریکی سفارت کاروں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے لیے ایک مخصوص قبرستان تعمیر کرنا چاہیے۔ قبر کے کتبے اس طرح کے ممکن ہیں۔ ’’امریکی اور پاکستانی۔ دو دل جو ایک دوسرے سے نا آشنا اور محبت سے خالی تھے مورخہ ۔۔۔ کو اچانک ایک دوسرے سے ٹکرا گئے‘‘۔ ان حادثات پر امریکیوں کی پیشانی عرق آلود ہونی چاہیے کیوں کہ شرم سے عام طور پر انسانی پیشانی پسینہ پسینہ ہوجاتی ہے۔ آخر یہ پاکستانی ہیں جن کی پیشانیوں پر پسینے کی بوندیں نمودار ہوتی ہیں۔ امریکی تو اپنے لوگوں کو چھڑوا کر لے جاتے ہیں چاہے دیت کے قانون کا سہارا لیں یا سفارتی استثنا کا۔ کرنل جوزف کے ہاتھوں ایک پاکستانی کی ہلاکت قتل نہ سہی غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ کی وجہ سے نادانستہ قتل ضرور تھا۔ سب کو معلو م تھا اس حادثے پر امریکی سفارت کار کا انجام کیا ہوگا۔ لیکن خوش فہمی کا عنصر اس وقت در آیاجب کرنل جوزف کو لانے کے لیے راولپنڈی بھیجے گئے امریکی جہازکو پانچ گھنٹے انتظار کے بعد کرنل جوزف کے بغیر خالی امریکا واپس جا نا پڑا۔ تمام اخبارات نے امریکا کو انکار کی شہ سرخیاں لگائیں۔ ایسا لگا ’’حمیت نام تھا جس کا آگئی تیمور کے گھر میں‘‘۔ یہ غلط فہمی تھی۔ ہمارا ڈٹنا کمپنی کی مشہوری کے لیے تھا۔ دوسرے ہی دن کرنل جوزف کا نام بلیک لسٹ سے نکال کر انہیں سی 130طیارے میں امریکا روانہ کردیا گیا۔
اس واقعے کے بعد جیسا کہ معمول ہے پاکستان میں شور پڑگیا ’’لٹ گیا، مرگیا، دل گیا، میں تباہ ہوگیا‘‘۔ زبانوں کو دھاریں لگ گئیں ’’آہ اب کرنل جوزف ہم میں نہیں رہے‘‘۔ سوشل میڈیا پر ساتھی پٹخنیاں کھانے لگے۔ قوم غصے سے بے حال ہوگئی۔ کسی کو خیال ہی نہیں رہا کہ ایک ویانا کنونشن بھی ہے جس کے تحت غیر ممالک میں تعینات سفیروں کو چند استثنا حاصل ہوتے ہیں۔ آپ پسند کریں یا نہ کریں ویانا کنونشن کے تحت کرنل جوزف کو پاکستان کے عدالتی عمل کے دائرے میں لانے کی گنجائش نہیں تھی۔ کرنل جوزف پر دیت والے کلیے کا اطلاق ممکن نہیں تھا۔ کرنل جوزف ریمنڈ ڈیوس نہیں تھا۔ ریمنڈ ڈیوس ایک پرائیوٹ کمپنی کا اہلکار تھا۔ امریکی ریاست کا نمائندہ نہیں تھا۔ امریکی اپنے شہریوں ہی کا نہیں مجرموں کا بھی تحفظ کرتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں نوجوان قتل ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت صدر اوباما کے جھوٹ سمیت اس کے تحفظ کے لیے بروئے کار آگئی۔ صدر اوباما نے ویانا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار کہا تھا۔ چوں کہ یہ جھوٹ تھا اس لیے بالآخر جان کیری اور پاکستان میں حکمران امریکی ایجنٹوں کو دیت کے قانون کا سہارا لینا پڑا تھا۔ کرنل جوزف امریکی فوج کا باقاعدہ ملازم اور اسلام آباد میں امریکی فوجی اتاشی تھا۔ اس پر گرفت کی دوصورتیں ممکن تھیں۔ امریکا کو درخواست دی جاتی کہ وہ اپنے ملک کے قوانین کے تحت کرنل جوزف کے خلاف کارروائی کرے یا پھر امریکا پاکستان میں قیام کے دوران کرنل جوزف کا ڈپلو میٹک اسٹیٹس ختم کردیتا۔ تب کرنل جوزف کی حیثیت ایک عام امریکی شہری کی ہوتی۔ اس صورت میں کرنل جوزف کے خلاف پاکستان میں قانونی کاروائی ہوسکتی تھی۔ امریکا سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے شہریوں کو پاکستانی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دے۔ اپنے شہریوں کو بے دغدغہ اور بغیر کسی غیرت اور پشیمانی کے مرنے کے لیے امریکا کے حوالے کر دینا یہ صلاحیت صرف پاکستان کے حکمرانوں کو حاصل ہے۔
آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فاصلہ اور رفتار سے چیز کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کبھی پاکستانی سفارت کاروں سے ایسے واقعات سرزد ہوئے تب بھی ان عالمی قوانین کی ہیئت اور اثر پزیری کا رنگ یہی ہوگا؟ تب یہ امتیاز تو نہ کیا جائے گا
’’قتل فریادی ہے کس کی شوخی تعزیر کا‘‘
گزشتہ دنوں امریکا کی طرف سے پاکستانی سفارت کاروں پر سفری پابندیاں عائد کرکے ان کی نقل وحرکت محدودکردی گئی۔ وزیر خارجہ خرم دستگیر نے بھی امریکی سفارت کاروں پر جوابی پابندیاں عائد کردیں۔ اس وقت پتا چلا کہ امریکی سفارت کاروں کو پاکستان میں کیا کیا شاہانہ سہولیات دی گئی ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیے:
1۔ سفارت خانے کا جو سامان باہر سے آتا ہے کھول کر اس کی تلاشی نہیں لی جاسکتی لیکن اس کو مشین سے اسکین کیا جا سکتا ہے۔ امریکی سفارت خانے کا جو سامان آتا تھا اس کی اسکیننگ نہیں کی جاتی تھی۔ ہم امریکی سفارت خانے کے سامان کی تلاشی لینا گوارا نہیں کرتے جب کہ پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پچھلے دنوں امریکا کے دورے پر گئے تو ان کی کپڑے اتار کر جامہ تلاشی لی گئی۔
2۔ امریکی سفارت خانے کی سرکاری گاڑیوں اور کرائے پر لی گئی گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے کی اجازت تھی۔ جب کہ قانونی طور انہیں اس کی اجازت نہیں تھی۔
3۔ امریکی سفارت خانہ غیر تصدیق شدہ موبائل سمز استعما ل کرسکتا تھا۔ یہ قانونی طور پر جائز نہیں۔
4۔ پاکستانی حکام کو مطلع کیے بغیر امریکی سفارت خانہ ’’سیف ہاؤس‘‘ بنا سکتا تھا۔ وہ ان سیف ہاؤسز کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ لوگوں کو اغوا اور ان پر تشدد کے لیے استعمال کرے ’’جو مزاج یار میں آئے‘‘۔ امریکی سفارت خانے کے علاوہ کسی اور ملک کے سفارت خانے کو یہ سہولت دستیاب نہیں تھی۔
ریمنڈ ڈیوس کو جب دیت کے اسلامی قوانین کا سہارا لے کر ملک سے بھگایا گیا اس وقت ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ اس کے بدلے میں ہم نے پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس جیسے ایجنٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ان کا نیٹ ورک ختم کردیا ہے۔ لیکن ان سہولتوں کی موجودگی میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں امریکا کی جاسوسی سرگر میوں کو محدود یا ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش کی گئی ہے۔ یقیناًاس وقت قوم سے جھوٹ بولا گیا اور کسے خبر کہ اس وقت بھی قوم سے جھوٹ نہیں بولا جارہا۔