زندگی ایک چیلنج ہے

272

عبداللہ

آغا خان اسپتال میں 25 دن تک کومے میں رہنے والے ٹرامیٹک برین انجری کے شکار 21سالہ عبداللہ کی کہانی
زندگی کی گاڑی کب کس موڑ مڑ جائے یہ کوئی نہیں جانتا ۔ تدبیر اور احتیاط تو انسان کے بس میں ہے مگر تقدیر سے لڑنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ شاہراہ زندگی پر انسان کبھی ایسے مقام پر آ جاتا ہے جس سے زندگی کی حقیقت اور معنی اس کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ 21 سالہ عبداللہ کی زندگی بھی آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ یہ رمضان المبارک کی بات ہے جب عبداللہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سحری کے وقت لانگ ڈرائیو پر تھا کہ بدقسمتی سے اس کی گاڑی ایک کھڑے ٹرک سے ٹکرا گئی ، اس کے بعد کیا ہوا، عبداللہ اس سے بے خبر رہا۔ حادثے میں گاڑی تباہ ہو گئی ۔ بازو اور دماغ پر شدید چوٹیں آئیں، گاڑی کاٹ کر عبداللہ کو باہر نکالا گیا ۔ 25 دن تک آغا خان اسپتال میں کومے میں رہنے کے بعد جب ہوش آیا تو اس کی دنیا اور پوری شخصیت تبدیل ہو چکی تھی ، وہ Traumatic brain injury کا شکار ہو چکا تھا ۔ ( واضح رہے کہ کسی حادثے ، حملے یا سر کے بل گرنے کے نتیجے میں سر میں لگنے والی چوٹ کو ٹرامیٹک برین انجری (Traumatic brain injury کہتے ہیں) جس کی وجہ سے وہ دن میں دس دس بار کھانا کھاتا ، رات دیر گئے سوتا ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتا ، بہت یادہ محبت اور توجہ چاہتا ۔ حادثے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا ۔ تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عبداللہ اس حادثے کے بعد شاعری کرنے لگا ہے اور اس کی گفتگو میں بھی فلسفیانہ رنگ نظر آنے لگا ہے ۔ یہ فلسفیانہ رنگ کوئی تک بندی نہیں بلکہ Genuine thought پر مشتمل ہے ۔ گو کہ عبداللہ خیالات کے ہجوم میں گھرا رہتا ہے مگر کرکٹ با قاعدگی سے کھیلتا ہے ، گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے اور روز آفس جاتا ہے ، تاہم وہ دوستوں کی کمی محسوس کرتا ہے جب ہم نے اس سے کہا کہ کچھ دوست بنا تو تو اس کا کہنا تھا کہ دوست بازار میں فروخت ہونے والی کوئی چیز نہیں جسے میں جا کر خرید لوں ۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ زندگی ایک چیلنج ہے زندگی کی وضاحت ایسے کی جا سکتی ہے کہ زندگی گاڑی کی طرح ہے ، چلتی رہتی ہے ، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس گاڑی کو آپ کس رفتار سے لے کر چل رہے ہیں جو چیلنج قبول کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور وہی گرتا ہے جو چلتا ہے ۔
عبداللہ آغا خان اسپتال میں ملک کے معروف نیورو لوجسٹ ڈاکٹر محمد واسع شاکر کے زیر علاج رہا اگر عبداللہ کی سوچ اور روز مرہ کے معمولات ایسے ہی رہے تو ان شاء اللہ عبداللہ کے ذہن سے حادثے کے تمام نقوش مٹ جائیں گے ۔

عبداللہ کی شاعری

تصور کرتا تھا زندگی کو بہار کی طرح
اتنی مشکل ہو گی کبھی سوچا نہ تھا
آج سے پہلے بھی جی رہا تھا زندگی
اس طرح زندگی کو ٹٹولا نہ تھا
ذکر کرکے اس کا پچھتا رہا ہوں میں
رویا اس بات پہ جس پہ رونا نہ تھا