خوشی پانے اور خوش رہنے کا راز

483

خوشی پانے کی کنجی کیا ہے؟ دوست، حس مزاح، جنسی آسودگی یا دولت؟ روایتی سوچ کے مطابق خوش رہنے کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ یا ہے؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب پانے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے سائنسدان کوششوں میں مصروف ہیں۔
سائنسدانوں نے برسوں تک کی جانے والی اپنی تحقیق میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انسان کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اگرچہ انہیں خوشی کا کوئی حتمی فارمولا تو نہیں ملا تاہم یہ ضرور ہوا کہ وہ خوشی کے حصول کے سلسلے میں چند ایسے اہم نکات کا کھوج لگانے میں کامیاب رہے ہیں، جو کسی بھی شخص کے ذاتی اور ثقافتی پس منظر سے قطع نظر اس پر لاگو ہو سکتے ہیں۔
یہ کہا گیا ہے The World Book of Happiness یا ’خوشی کی عالمی کتاب‘ نامی اْس تصنیف میں، جو حال ہی میں شائع ہو کر بازار میں آئی ہے۔ اس کتاب میں خوشی کا راز پانے کی کوششوں میں مصروف اور اپنے اپنے شعبے میں دنیا کے بہترین محققین اور سائنسدانوں کے 100 مضامین کا تجزیہ کیا گیا ہے۔خوشی کا جذبہ حاصل کرنے کے لیے صرف مادی دولت کا ہونا ضروری نہیں.روٹرڈیم کی ایراسمس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسرVeenhofen Ruut مثبت نفسیات کے شعبے کے ماہر ہیں۔ ان کے مطابق خوشی کا مطلب ہے ’اپنی ذاتی زندگی کی قدر کرنا‘۔ انہوں نے خوشی کی اس تعریف کے ساتھ ہی دنیا کے148 ممالک کے شہریوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ ’وہ اپنی زندگی میں موجود ہر چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ وہ اس وقت اپنی زندگی سے کتنے خوش ہیں؟۔1 سے 10 تک کے پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے Veenhofen نے خوشی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے آسودہ ملک کوسٹا ریکا کو(8.5) پایا۔ اس کے بعد ڈنمارک (8.3)، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ (دونوں 8.0) رہے۔ جبکہ جس ملک کے عوام میں سب سے کم خوشی پائی گئی، ان میں افریقی ممالک ٹوگو( 2.6)، تنزانیہ ( 2.6) اور زمبابوے (2.8) شامل ہیں۔بیشتر محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی میگزین فوربز میں دنیا کے امیر ترین افراد کی جاری کردہ فہرست میں نام شامل ہونے سے یہ گارنٹی نہیں ملتی کہ وہ شخص نہایت آسودہ اور خوشیوں بھری زندگی بھی گزار رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق مادی دولت کا مطلب یہ نہیں کہ دولت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی بڑھتی جائے گی۔ مثال کے طور پر مادی دولت سے مالا مال ملک ناروے کو لے لیں، جو خوش باش لوگوں کے اسکیل پر 7.9 پوانٹس حاصل کر سکا ہے۔خوش رہنے میں مستحکم خاندانی تعلقات اور دوسروں کی مدد کا جذبہ بھی مدد دیتا ہے۔ماہرین کے مطابق خوشی کا ایک اور اہم راز ہے، خود کا دوسرے سے تقابل نہ کرنا۔ یونیورسٹی آف آئیووا کے پروفیسر ڈیوڈ واٹسن کہتے ہیں کہ اگر خوش رہنا ہے تو ’خود کو حسد اور جلن سے آزاد رکھیں‘۔ اسی طرح پیرس کی سوبورن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کلاڈیا سینک کہتی ہیں کہ خود کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں بلکہ اپنے منصوبوں اور اپنی آرزوؤں پر توجہ مرکوز رکھیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات پروفیسر سونیالیوبومرسکی کہتی ہیں کہ ’آیا ہم خوش باش رہنے والی شخصیت ہیں یا نہیں، اس کا 50 فیصد ہمیں پیدائشی طور پر ہی مل جاتا ہے۔ 10 فیصد کا تعلق ہمارے حالات زندگی سے جبکہ خوش رہنے کا باقی 40 فیصد دار و مدار ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے‘۔
باقی ماہرین کے خیال میں ورزش، حسِ مزاح، ملازمت، صحت اور جنسی آسودگی بھی خوش رہنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا بھی خوشی دیتا ہے۔یونیورسٹی آف زغرب سے وابستہ ماہرینِ نفسیات ڈْبرووکا میکلووِچ اور مائدہ ریاویس نے خوش رہنے کے لیے چھ اہم عوامل بیان کیے ہیں۔ ان میں قابل اعتبار اور قریبی دوست، محبوب سے مستحکم رشتہ، اپنی صلاحیتوں کے مطابق نوکری، مستحکم معاشی زندگی، دن میں کم از کم تین مثبت تجربات اور جوکچھ زندگی میں حاصل ہے، اس کی قدر کرنا۔اسی طرح پانچ اور چیزیں ایسی ہیں، جو خوشی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ہیں، خدا پر یقین، صاحب اولاد ہونا، مزید تعلیم کا حصول، اچھی صحت اور کچھ ناکامیوں سے تجربہ حاصل کرنا۔
شادی کرنے سے دل کی بیماری لاحق ہونے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں، تحقیق
طبی ماہرین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھے افراد کو غیر شادی شدہ لوگوں کے مقابلے میں دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔امریکی شہر نیو یارک کے’’لینگن میڈیکل سینٹر‘‘ سے وابستہ امریکی ماہرین نے 21 سے 102 برس کے 35لاکھ مرد اور خواتین کی طرز زندگی اور صحت پر مبنی وسیع تر معلوماتی ڈیٹا کے ذریعے شادی اور دل کی صحت کے باہمی ربط کا تجزیہ کیا، جس میں شادی اور دل کی بیماریوں کے خطرے کا باہمی تعلق خاص طور پر نوجوان شادی شدہ جوڑوں میں بہت مضبوط نظر آیا، اس کے علاوہ تحقیق سے اس بات کا بھی پتا چلا کہ شریک حیات کے مرنے سے دل کی بیماریاں، بلند فشار خون اور ذیابیطس کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ جوڑوں میں خاص طور پر پیروں میں خون کی فراہمی پر اثرانداز ہونے والی بیماری ’پیری فیرال آرٹیریل‘ کا خطرہ 19 فیصد، دماغ میں خون کے کمزور بہاؤ کی بیماری ’سری بروویسکیولر‘کا خطرہ غیر شادی شدہ افراد کے مقابلے میں 9 فیصد کم ہوتا ہے، اسی طرح انسانی جسم کی اہم ترین شریان ایاورٹک میں ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنیوالی بیماری کا خطرہ بھی8 فیصد کم پایا گیا۔