نواز شریف سے کیا سوال کیا گیا تھا اور انہوں نے کیا جواب دیا۔ ڈان کے نمائندے نے اُن سے پوچھا تھا کہ انہیں اُن کے عہدے سے ہٹانے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نواز شریف نے براہ راست جواب دیے کہ انہوں نے اس کا رُخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے خود کو تنہائی کا شکار کرلیا، ہماری قربانیوں کے باوجود ہمارے موقف کو قبول نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کا موقف قبول کیا جاتا ہے لیکن ہمارا نہیں۔ عسکریت پسند تنظیمیں متحرک ہیں، کیا ہمیں انہیں اجازت دینی چاہیے تھی کہ وہ سرحد پار کریں اور ممبئی میں 150 لوگوں کو مار دیں۔ یہ کہتے ہوئے نواز شریف کو یاد نہیں رہا کہ پچھلے چار ساڑھے چار سال سے وزیراعظم کے ساتھ وزیر خارجہ کا عہدہ بھی انہوں نے ہی سنبھال رکھا تھا۔ جو بات انہوں نے کہی اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے دُنیا کے ملکوں کو حقائق بتانے کے لیے مناسب کوشش نہیں کی۔ بھارت سندھ بلوچستان میں کیا کچھ دہشت گردی کررہا ہے لیکن کلبھوشن کا نام ان کی زبان پر آہی نہیں سکا۔ کنٹرول لائن پر بھارتی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک معصوم شہریوں کے لیے انہوں نے کبھی زبان نہیں کھولی۔ کبھی بھارت کی اس سلسلے میں مذمت نہیں کی۔ پھر دُنیا کو کیسے پتا چلے گا؟؟۔
زبان کھولی تو خود اپنے ہی ملک پر الزام لگادیا، پھر کہتے ہیں کہ مجھ سے بڑا محب وطن کوئی نہیں۔ لیکن سب سے بڑے محب وطن اپنے وطن پر الزام لگانے پر ڈٹے ہوئے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو قومی کمیشن بنا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرلیں۔بین الاقوامی سطح پر جرمن مصنف اپنی کتاب میں ممبئی حملے کو بھارت کا ڈراما قرار دے چکے ہیں، خود بھارت میں ان حملوں کا ذمے دار بھارتی حکومت کو قرار دیا جاچکا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کا ممبئی حملوں میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ پھر کیا یہ موقع ایسی بے موقع بات کرنے کا تھا جب کہ الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ آخر اس بیان سے نواز شریف کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور انہیں کیا حاصل ہوا ہے؟؟۔ مظلومیت کا نعرہ تو وہ بلند کرتے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں کہ انہیں پہلے بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور اب دوبارہ ایسا کیا گیا ہے (حالاں کہ حکومت تو ان کی جماعت ہی کی ہے اور وزیراعظم ان ہی کو اپنا وزیراعظم قرار دیتے ہیں)۔ بقول ان کے کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود انہیں نااہل قرار دے دیا۔ کیا عوام نے انہیں مظلوم مان لیا ہے۔ اس سوال کا جواب تو ہر ایک کے پاس کچھ مختلف ہوگا اور صحیح جواب انتخابات کے نتائج بتائیں گے۔ سوال جو آج شاید ہر ایک کے دل میں ہے وہ یہ کہ یہ بیان اسی وقت نواز شریف نے کیوں دیا؟ وہ خلائی مخلوق کا نام لیتے لیتے اب براہ راست الزام پر آگئے؟ تو کیا اس کی وجہ اس بات پر مزید زبانی کلامی مہر ثبت کرنا ہے کہ اُن کی نااہلی کے پیچھے خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے، لیکن یہ مہر ثبت کرتے ہوئے وہ یہ بات کبھی نہیں کہتے کہ تین دفعہ کے وزیراعظم بننے میں بھی وجہ خلائی مخلوق کی سرپرستی تھی۔ جنرل پرویز نے انہیں اگر جلاوطن کیا تھا تو انہی کی حکومت سے وہ مراعات بھی حاصل کرچکے ہیں۔
وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ انتخابی پرندے بڑی تیزی سے اُن کی پارٹی سے اُڑان بھر کر چلے جارہے ہیں، اس سلسلے میں وہ کہہ ہی چکے ہیں کہ اُن کی پارٹی کے لوگوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ دوسری طرف ان کے پرانے ساتھی چودھری نثار کہتے ہیں کہ چالیس پچاس ارکان نے اُن سے رابطے کیے لیکن انہوں نے اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ہوسکتا ہے یہ بیان اپنے آپ کو ایک کرپشن کے مجرم کے بجائے ایک اسٹیبلشمنٹ کے آگے دیوار بننے والے مجاہد کے طور پر پینٹ کرنے کے لیے بھی دیا گیا ہو لیکن دوسری طرف تو وہ خود اسٹیبلشمنٹ کے جلو میں آگے بڑھتے رہے ہیں۔ یہ سارے مقاصد ایک طرف سارے سوالات کے جوابات بھی ایک طرف۔ تنگ آمد بجنگ آمد بھی ایک طرف لیکن ایک ایسے وقت میں جب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تنہا ہوگیا ہے (اگرچہ تنہائی کے دور میں وہ اور ان کی جماعت ہی اقتدار میں رہی ہے) تو پھر پاکستان دشمنی کا بیانیہ اُن کی حب الوطنی پر سوال تو کھڑے کررہا ہے۔ قومی سلامتی کمیشن کے اجلاس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شامل ہوتے ہیں خاموش رہتے ہیں اور باہر آکر کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ سارا بوجھ بھارتی میڈیا پر ڈال کر فارغ ہورہے ہیں حالاں کہ نواز شریف پھر اپنے بیانیہ کی تائید کرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ نواز شریف کا یہ بیان پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ یہ پاکستان کے لیے وقفے وقفے سے پھٹنے والا بم ہے۔ بھارت اس کو جتنا ابھی اچھال رہا ہے بعد میں بھی اچھالتا رہے گا کہ تین دفعہ کا وزیراعظم یہ کہہ رہا ہے کہ ممبئی حملے میں حملہ آور پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ سراج الحق نے صحیح کہا کہ نواز شریف نے بے وقف کی راگنی چھیڑی ہے۔ انٹرویو میں سوال کچھ تھا لیکن وہ ممبئی حملوں کی بات لے بیٹھے۔ اس وقت تو بھارت نے اس سلسلے میں خود بھی خاموشی اختیار کرلی تھی کہ اندر اور باہر کی گواہیاں حملوں کے ذمے دار بھارتی حکومت کو قرار دے رہے تھے اور بھارتی وزیر خارجہ بیان دے چکے تھے کہ پاکستان کی ریاست کا ممبئی حملوں میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اس معاملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خودکش حملہ کیا ہے، اس حملے کے نتیجے میں امکان یہی ہے کہ زیادہ نقصان خود ان کا ہوگا اور ہوا ہے۔ اب بھی کوشش ان کی یہی ہے کہ انہیں مظلوم مجاہد سمجھا جائے۔ لہٰذا اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور غداری کا تعین کرنے کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے جو ذمے دار ہو اُسے سرعام پھانسی دے دی جائے۔ ویسے جیل کے بجائے جلاوطن ہونا قبول کرنے والے نواز شریف کے منہ سے پھانسی کی خواہش کچھ جچتی نہیں!!۔