’’لال ماسٹر صاحب‘‘

1749

یاد کے پردے پر اُستاد کے نام سے جو پہلا چہرہ کبھی اُبھرا ہے وہ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کا مُسکراتا ہوا چہرہ ہے۔ اس چہرے کے ارد گرد پھیلے ہوئے نور کے ہالے میں اور بھی کئی چہرے گردش کر رہے ہیں۔ باقی سب چہرے جانے پہچانے اور کم سِن ہیں۔ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کا چہرہ ان سبھی چہروں سے مختلف ہے۔ اس چہرے کے حامل افراد کو ہمارے معاشرے میں ’سورج مُکھی‘ کہا جاتا ہے۔ جلد کا رنگ سرخی مائل گورا، بال، بھنویں، پلکیں سب سفیدی مائل بھورے، نظریں کمزور اور آنکھیں مچی ہوئی سی۔ دھوپ میں چلیں تو جِلد جلتی ہے۔ تیز روشنی آنکھوں میں چبھتی ہے۔ سورج کی سمت اپنی نظروں کا رُخ بھی نہیں پھیر سکتے۔ شاید اسی وجہ سے مزاحاً ’سورج مُکھی‘ کہلاتے ہیں۔
پہلی، دوسری اور تیسری جماعت کی تعلیم اس طالب علم نے کسی تعلیمی ادارے میں حاصل نہیں کی۔ والد صاحب نے گھر ہی پر اتنا کچھ پڑھا دیا تھا کہبہت آگے نکل گئے۔ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ سے چوتھی جماعت کے نصابی اسباق سیکھنے گئے تاکہ داخلے کا امتحان پاس کرکے پانچویں جماعت میں کسی ’سرکاری مدرسے‘ میں داخل ہو سکیں۔ وطنِ عزیز پاکستان کا یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری مدارس میں داخلہ ملنا قابلیت کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کے متعلق فرض کر لیا جاتا تھا کہ نالائق ہے، تب ہی تو کسی سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں مل سکا۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ بھی نجی اسکولوں کے اساتذہ کے مقابلے میں قابل سمجھے جاتے تھے۔
نام تو اُن کا غلام علی تھا۔ مگر ہم سب بچے اُن کے سورج مُکھی ہونے کی وجہ سے اُنہیں ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کہتے تھے۔ اُس زمانے تک اُستاد کو ’سر‘ وغیرہ کہنے کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔ استاد کو مالک و آقا یعنی ’ماسٹر صاحب‘ ہی کہا جاتا تھا، جو کثرتِ استعمال سے کبھی کبھی ’ماصّاب‘ بن جاتا۔ سو ہمارے یہ اُستاد بھی ہمارے لیے ’’لال ماصّاحب‘‘ تھے۔ فاروقی مسجد (سعودآباد، کراچی) کے عقب میں اُس زمانے میں بھینسوں کا ایک باڑا تھا۔ اس باڑے کے پیچھے واقع ایک چھوٹے سے مکان کے کھلے صحن میں، نیم کے گھنے پیڑ کے نیچے بچھی ہوئی دریوں پر، ہماری اجتماعی کلاس لگتی تھی۔ اس نیم تلے ماصّاب بھی ہمارے ساتھ ہی فرش نشیں ہوتے تھے۔ کوئی مہمان یا کسی بچے کے والد آجائیں تو اُٹھ کر چار پائی پر بیٹھ جاتے تھے۔ (اُس زمانے کی ’والدائیں‘ گھر سے نکل کر استادوں اور استانیوں سے پنگا نہیں لیتی پھرتی تھیں)۔
غلام علی صاحب مسلکاً شیعہ تھے (مگر یہ بات تو ہمیں بڑے ہو کر معلوم ہوئی) یاد نہیں کہ اُن کے شاگردوں میں کوئی شیعہ بچہ بھی تھا یا نہیں، تاہم اُن کے جتنے شاگرد یاد آتے ہیں اُن سب کا تعلق اُن خاندانوں سے تھا جو سنّی کہے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض خاندان تو وہابی بھی تھے۔ مگر’’لال ماسٹر صاحب‘‘ سب بچوں سے انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ بعض کو گود میں بٹھا کر پڑھاتے۔ یحییٰ کی ناک ہر وقت بہتی ہی رہتی تھی۔ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ ایک رومال اپنے پاس بطورِ خاص رکھتے تھے، جس سے ہر وقت اُس کی ناک صاف کرتے رہتے۔ ایک روز بڑے رازدارانہ لہجے میں پوچھنے لگے: ’’حاطب میاں! یہ یحییٰ ہر وقت چپ چاپ اور گم صُم کیوں بیٹھا رہتا ہے؟‘‘
چوتھی جماعت کے اِس طالب علم نے ’’کچی پہلی‘‘ کے بچے کو غور سے دیکھا اور اپنی ماہرانہ رائے پیش کی: ’’شاید کچھ سوچتا رہتا ہے‘‘۔
’’لال ماسٹر صاحب‘‘ بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ کہنے لگے: ’’چل ہٹ۔۔۔ اس عمر میں کیا سوچے گا؟‘‘
بولتی تو ننھی منی سعیدہ بھی نہیں تھی۔ ہر وقت۔۔۔ بلکہ ماصّاب کے ہر سوال پر۔۔۔ فقط مسکراتی ہی رہتی تھی۔ خوب کَسی ہوئی دو چُٹیاں باندھے، ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’ایک کان سے دوسرے کان تک‘ بس مسکرائے چلی جاتی تھی۔ اسے دیکھ کر ماصّاب خود بھی مُسکرا دیتے: ’’یہ اتنا کیوں مُسکراتی ہے؟‘‘ چوتھی جماعت کا دانشور جواب دیتا: ’’اس کی دونوں چُٹیاں اتنی ٹائٹ جو بندھی ہوئی ہیں۔ تھوڑی سی ڈھیلی کر دیں تو مُسکرانا بند کر دے گی‘‘۔ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ پھر ایک قہقہہ لگاتے: ’’چل ہٹ ۔۔۔ شریر کہیں کا!‘‘
’’لال ماسٹر صاحب‘‘ نہایت خوش خط تھے۔ ہماری تختی پر کچی پنسل سے، بہترین نشست و برخاست کے ساتھ، جو حروفِ تہجی وہ تحریر کرتے، کیا خوش نویس صاحبان ایسے حروف تحریر کریں گے۔ ہمارا کام اُن حروف پر بقول اُن کے صرف ’’ہاتھ پھیرنا‘‘ تھا۔ ملتانی مٹی سے لِپی ہوئی سفید تختی پر سجے، پنسل سے کھنچے، ان سرمئی حروف پر جب ہم دوات کی سیاہی میں سرکنڈے کا قلم ڈبو کر بڑی احتیاط سے ہاتھ پھیرتے تو تختی چمک اُٹھتی۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اتنے خوبصورت حروف اس لوحِ سفید پر ان ننھے منے ہاتھوں نے تحریر کیے ہیں۔ ہماری لکھی ہوئی تختی بعض اوقات گھر آئے مہمانوں کو بھی بڑے فخر سے دکھائی جاتی۔ یہ تختی دن بھر یوں ہی رہتی۔ اگلے دن کے لیے رات کو لیپی پوتی جاتی۔
ابھی وہ زمانہ بہت زیادہ دُور نہیں چلا گیا جب ’’جسارت‘‘ کے تمام صفحات دفتر ’’جسارت‘‘ میں اُکڑوں بیٹھے ہوئے کاتب تحریر کیا کرتے تھے۔ ان ہی زمانوں میں سے جس زمانے میں برادر شاہد ہاشمی ’’جسارت‘‘ کے چیف ایگزیکٹو تھے اخبار میں کتابت کی غلطیوں کی بھرمار پر اکثر کڑھتے رہتے۔ ایک روز یکایک اُنہوں نے ہیڈ کاتب کو بلا کر حیرت سے پوچھا: ’’ابونثرؔ کے کالم میں کتابت کی غلطیاں کیوں نہیں ہوتیں؟‘‘ ممتاز صاحب جھٹ کالم کا مسودہ اُٹھا لائے۔ کہنے لگے: ’’اس شخص کی ہینڈ رائٹنگ دیکھیے۔ موتی پرو کر رکھ دیے ہیں۔ تحریر ایسی ہو تو جس کاتب کو دے دیجیے بے اغلاط کتابت کرے گا‘‘۔ شاہد بھائی نے جب یہ قصہ ہمیں سنایا تو ہم نے احساسِ ممنونیت کے ساتھ انہیں بتایا کہ ہمارا دامن اِن موتیوں سے ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ نے بھرا تھا۔ یہ ایسے موتی ہیں کہ لٹاتے رہیے، ختم ہونے ہی میں نہیں آتے۔
’’لال ماسٹر صاحب‘‘ سے غالباً پانچ چھے ماہ پڑھا ہوگا۔ ہر ماہ کے شروع میں کسی ایک دن والد صاحب بھی ساتھ آجاتے ۔ ماصّاب کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر کچھ دیر باتیں کرتے پھر چلے جاتے۔ ہم بڑے ہوئے تو والدہ محترمہ نے بتایا کہ والد مرحوم اس بات کو سخت معیوب گردانتے تھے کہ اُستاد کو فیس اُس کے شاگرد کے ہاتھ سے دلوائی جائے۔ یہ استاد کی توہین ہے اور شاگرد کی تباہی۔ کہیں بچے کے ذہن میں یہ بات نہ بیٹھ جائے کہ یہ شخص ہمارا ’’زرخرید‘‘ ہے۔ استاد کا احترام کیے بغیر اور اُس سے محبت رکھے بغیر کچھ نہیں سیکھا جا سکتا۔ بُھلائے نہیں بھولتا کہ اُن ہی دنوں اس شاگرد کو ’میعادی بخار‘ ہوگیا۔ کھانا پینا سب بند۔ عجب بیزار طبعی کے دن تھے۔ ایک دن فجر کے بعد ۔۔۔ جب بڑے بھائی دفتر جانے کی تیاری کے لیے کوئلے کی استری سلگا رہے تھے اور والد صاحب اپنے مخصوص تخت پر بیٹھے آنکھیں موندے، اپنے مخصوص لحن میں بہ آوازِ بلند زبانی تلاوت فرما رہے تھے۔۔۔ کسی نے دروازے پر لٹکی ہوئی زنجیر بجائی۔ معلوم ہوا کہ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ آئے ہیں۔ وہ سعودآباد نمبر 1 سے کھوکھراپار نمبر 2 تک، تقریباً میل بھر کا فاصلہ پیدل طے کرکے صبح صبح اپنے ننھے شاگرد کی عیادت کے لیے آئے تھے، کیوں کہ آٹھ بجے سے اُن کے دیگر شاگرد آنا شروع ہو جاتے۔ اب یہاں ایک اور قصہ سنیے جس سے ہماری اعلیٰ تہذیبی روایات کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ ایک کمرے اور ایک برآمدے والے مکان کے کھلے صحن میں چارپائی ایک طرف کھینچ کر ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کو آڑ میں بٹھا دیا گیا۔ والد صاحب نے اندر جا کر والدہ سے کہا: ’’ناشتے کے لیے جو کچھ بھی ہے، بنا دو‘‘۔ والدہ نے سبز میتھی ڈال کر آلو کی چٹپٹی بھجیا بنائی اور بڑے بھائی کے ہاتھوں صحن میں بھجوا دی۔ پھر توے پر پھول پھول جانے والی گرما گرم روٹیوں کی لین ڈوری باندھ دی۔ تکلف اور نہ نہ کرتے ہوئے بھی ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ نے بڑی رغبت سے اور پیٹ بھر کر کھایا۔ جب تک ہمیں پڑھایا اس ناشتے کے چٹخارے لیتے رہے۔ کہتے تھے: ’’حاطب کی والدہ کے ہاتھوں بنی ہوئی آلو اور سبز میتھی کی بھجیا کا ذائقہ آج بھی نہیں بھولتا‘‘۔
’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کی اہلیہ انتقال کر چکی تھیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی اُن کے ساتھ اُسی چھوٹے سے مکان میں اُن کی ٹیوشن کی کمائی سے پرورش پار ہی تھی۔ بیٹے کا نام غلام عباس تھا۔ بیٹی کا نام یاد نہیں۔ وہ ہم سب سے اتنی بڑی تھیں کہ سب بچے انہیں آپی کہہ کر پکارتے تھے۔ آپی کبھی کبھی ہماری اُنگلی پکڑ کر ماڈل کالونی کے ایک ’’بنگلے‘‘ میں مفتی صاحب کی بیٹی فریال سے ملنے جایا کرتی تھیں، جس کے نام پر مفتی صاحب نے ’’فریال ماڈل اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنایا تھا۔ ایک بار اس ادارے کی سالانہ تقریب میں صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی تشریف لائے تھے، جنہیں سرخ وردی میں ملبوس طالب علموں کے گھڑ سوار دستے نے سلامی دی تھی۔
سلامی دینے کے کچھ برسوں بعد۔۔۔ جب ہم آٹھویں جماعت میں اور ’’سرکاری مدرسہ ثانویہ برائے طلبہ، سعودآباد‘‘ یعنی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، سعودآباد میں زیر تعلیم تھے۔۔۔ ایک روز اپنے اسکول میں کامیاب ہڑتال کروائی اور طالب علموں کے جلوس کے ساتھ ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے فریال ماڈل اکیڈمی میں ہڑتال کروانے کو ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کے گھر کے قریب سے گزرے۔ ان کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ اپنے نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑے اپنا پوپلا سا منہ حیرت سے کھولے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اب وہ بوڑھے ہو چکے تھے۔ شاگرد شرمندہ ہو کر وہیں سے پلٹ گیا۔ جو نعرے لگ رہے تھے وہ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کی تربیت سے لگّا نہیں کھاتے تھے۔ بس یہ اُن کی آخری جھلک تھی جو ہم نے دیکھی۔ ایک روز پتا چلا کہ ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کا انتقال ہو گیا۔
اس تحریر میں ’’لال ماسٹر صاحب‘‘ کے جن تین شاگردوں کے نام آئے ہیں ان میں سے ہر ایک کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔
باقی صفحہ11نمبر1
احمد حاطب صدیقی
اللہ نے توفیق، زندگی نے مہلت اور روزگار نے فرصت دی تو سب کی کہانی لکھی جائے گی۔ ان تین شاگردوں میں سے ایک تو کالم نگار بن بیٹھا۔ ایک عصر حاضر کے مقبول ترین سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی ہفت روزے کا مدیر بن گیا۔ وہ بچی جو ہمہ وقت ایک کان سے دوسرے کان تک مسکراتی ہی رہتی تھی۔ پچھلے برس کے اسی ماہ میں (16مئی 2017ء کو) دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے ایک روز اچانک ہی اس دنیا سے چلی گئی ۔۔۔ سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر ۔۔۔ اور خود مسکرانا چھوڑ کر ۔۔۔ شاید کسی نے اس کی چُٹیاں ڈھیلی کر دی ہوں گی۔