نواز شریف کی نا اہلی اور پرویز مشرف مقدمہ

352

نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف اب ایک نئی کہانی لائے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سابق جرنیل اور آمر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے پر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی ہے۔ نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس اور اٹک میں خطاب کے دوران میں مزید انکشافات کیے ہیں جن کے بارے میں وہ کئی دن سے کہہ رہے تھے کہ سب کچھ بتادوں گا۔ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کو وہ اپنا جرم قرار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہناتھا کہ 2014ء میں اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے کے دوران فوج اور سیکورٹی اداروں کے افسران نے ان کو دھمکایا کہ استعفا دو یا لمبی چھٹی پر چلے جاؤ، زرداری نے پرویز مشرف کے مارشل لا کی توثیق کے لیے کہا۔ نواز شریف کا کہناہے کہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بناتے وقت مشورہ ملاکہ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کردوں۔ڈکٹیٹر کو کٹہرے میں لانا آسان نہیں لیکن میں نے سر جھکاکر نوکری کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ دھرنوں کی پشت پناہی کرنے والا امپائر کون تھا۔ ایک خبر کے مطابق نواز شریف کو مستعفی ہونے کا پیغام ان کے سمدھی اسحاق ڈار اور ایک بڑے تاجر کے ذریعے بھجوایا گیا۔ جس پر نواز شریف نے اس وقت کے سپہ سالار جنرل راحیل کو صورتحال سے آگاہ کردیا تھا۔ ممکن ہے کہ میاں نواز شریف کے انکشافات میں کچھ حقیقت ہو لیکن اس سے کچھ نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دھرنا 2014ء میں ہوا تھا جس کے بعد نوازشریف جولائی 2017ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ انہوں نے سر جھکاکر نوکری کرنے سے انکار کردیا۔ بہت اچھا کیا لیکن اگر وہ نااہل قرار دیے جانے سے پہلے یہ حقائق عوام یا کم از کم قومی اسمبلی کے سامنے رکھ دیتے تو ان کے الزامات میں وزن ہوتا۔ اس صورت میں زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا جو بعد میں ہوا۔ اپنی نا اہلی کو جنرل پرویز پر مقدمے سے جوڑ رہے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ان پر بد عنوانی اور غلط بیانی کے الزامات ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں کچھ کہا اور عدالت میں کچھ اور۔ اب وہ عوام کو نئی تصویر دکھارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیرون ملک ان کی اولاد کی جائدادوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اتنا تو بتادیں کہ ان کے بچوں کے پاس رقم کہاں سے آئی۔ اس کا جواب ان کے پاس نہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ کسی دھمکی میں نہیں آئے اور سر جھکانے سے انکار کردیا لیکن میاں نواز شریف اس سے پہلے دو مرتبہ وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے جاچکے ہیں۔ صدر غلام اسحاق کے حوالے سے انہوں نے کہاتھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے لیکن اگلے ہی دن ٹی وی پر ان کا بیان کچھ اور تھا۔ انہیں شاید کاکڑ فارمولا یاد نہیں رہا۔ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم کی کھینچا تانی میں مداخلت کرتے ہوئے دونوں ہی کو فارغ کردیا تھا اور نواز شریف نے سر جھکادیا تھا۔ اب بھی اگر فوج اور خفیہ ادارے ان کے خلاف ہوگئے تھے تو ایک بار پھر کاکڑ فارمولاعمل میں لایا جاسکتا تھا۔ لیکن خود ان کے بیان سے ظاہر ہے کہ جنرل راحیل شریف نے مداخلت نہیں کی اور عمران خان کہتے رہ گئے کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ پیپلزپارٹی تک نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ پاناما اسکینڈل کو عدالت میں لے کر نہ جائیں بلکہ پارلیمنٹ سے رجوع کریں۔ لیکن میاں صاحب اونچی ہواؤں میں تھے یہاں تک کہ جے آئی ٹی بننے پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ جہاں تک کسی سابق ڈکٹیٹر کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کی بات ہے تو میاں نواز شریف کی بات صحیح ہے۔ پاکستان میں یہ کام آسان نہیں ہے لیکن آئین کی دفعہ 6 کے تحت کسی کو غدار قرار دینے کا عمل بھی پارلیمنٹ سے ہوکر گزرتا ہے۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے ان سے مشرف کے مارشل لا کی توثیق کے لیے کہا تو اس کا جواب زرداری ہی دیں گے لیکن یہ کام کب ہوا؟ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ یا مطالبہ اس وقت کیا گیا ہوگا جب پرویز مشرف اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس وقت تک تو آصف زردری اور نواز شریف دونوں ہی اقتدارسے دور تھے تو نواز شریف کس حیثیت میں پرویز مشرف کے مارشل لا کی توثیق کرتے جب کہ پرویز مشرف کے خلاف بے نظیر میدان میں اترچکی تھیں اور اپنی مہم چلارہی تھیں۔ اس عرصے میں آصف زرداری احتیاطاً ملک سے باہر رہے اور بے نظیر کی شہادت پر ملک میں واپس آئے۔ تو کیا اس وقت زرداری نے میاں صاحب کو مذکورہ مشورہ دیا تھا۔ لیکن یہ اس لیے قرین قیاس نہیں کہ زراری کو خواب میں ایوان صدر نظر آرہاتھا جس کے لیے پرویز م شرف کا اس ایوان سے نکلنا ضروری تھا۔ میاں صاحب اپنی نا اہلی کے ڈانڈے پرویز مشرف کے خلاف مقدمے سے نہ ملائیں۔ اس پر اعتبار مشکل ہی سے آئے گا۔