سرخ قالین ضرور بچھائیے مگر

333

پاکستان اور بھارت کے درمیان حکومتی سطح پر روابط قریب قریب ختم ہو چکے ہیں۔ مذاکرات کے تمام دروازے بند اور کواڑ مقفل ہوچکے ہیں۔ ماہ وسال کی مکڑی نے ان پر جالے بُن لیے ہیں۔ جن ہوٹلوں میں ’’مشروبات مشرق ومغرب‘‘ پر دونوں طرف کے ریٹائرڈ فوجیوں، سفارت کاروں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے قہقہے گونجتے تھے ان کے در ودیوار ایسی مشترکہ محفلوں کو ترستے ہیں۔ واہگہ کی سرحد سے کوئی بھولا بھٹکا راہی کسی تقریب میں شرکت کے لیے ہی سہی دہلی کی طرف جانکلے تو وہاں کے ہوٹل میزبانی کا یہ بوجھ اُٹھانے سے انکار کردیتے ہیں اور یوں مہمان اُلٹے پاؤں لوٹ آنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں خواہ یہ مہمان امن اور انسانیت کے ترانے لکھنے والے پاکستان کے بائیں بازو کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی صاحب زادی ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان اور بھارت کے سفارت کاروں اور افسروں کا آمنا سامنا کسی تیسرے فورم پر ہوتا بھی ہے تو اقوام متحدہ کے ہال کی طرح دونوں طرف سے الزامات اور تند وتیز بیانات کا تبادلہ ہی ہوتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر دونوں کے حکمرانوں کو حالات اکٹھا کر بھی دیں تو نظریں چرانے اور پہلو بچانے کا عمل تعلقات کا بھرم کھول کر رکھ دیتا ہے۔ سفارتی آمنا سامنا اس انداز سے ’’سلیبریٹ‘‘ ہوتا ہے تو فوجوں کا آمنا سامنا کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر ایک باقاعدہ جنگ کی صورت میں ہورہا ہے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں انسان ہی نہیں امن کی امید بھی دم توڑتی چلی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے چونکا دینے والی تجویز پیش کی ہے۔ این ڈی ٹی وی کے اینکر کے اس سوال کے جواب میں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہیں، رشتے منجمد ہیں اور امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ان حالات میں کیا کیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے میں نے ٹریک ٹو کے اجلاس میں تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر کو دورے کی دعوت دے۔ پاکستان میں کسی نے اس پر توجہ نہیں دی اب میں بھارت سے کہتا ہوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائیے انہیں دلی آنے کی دعوت دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
اے ایس دولت نے یہ تجویزاس وقت پیش کی ہے جب انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان ہے ’’دی اسپائی کرانیکل: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف یس‘‘۔ یہ دونوں حریف خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کے تجربات ومشاہدات پر مبنی مشترکہ کاوش ہے۔ ماضی کی ’’امن کی آشا‘‘ کی طرح یہ کاوش کسی تیسرے اور نادیدہ فریق کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔ یوں یہ ایک مشترکہ پروجیکٹ ہو سکتا ہے جو از خود ٹریک ٹو کے توانا ہونے والے جراثیم کا پتا دیتا ہے۔ مسٹر دولت کی ایک اور کتاب ’’کشمیر: دی واجپائی ایرز‘‘ کے نام سے بھی منظر عام پر آکر خاصی گرما گرم بحث کا موضوع رہ چکی ہے۔
مذاکرات کے حوالے سے مودی حکومت کی سخت گیری اپنی جگہ مگر دونوں ملکوں میں ٹریک ٹو مذاکرات کی بحالی شروع ہو چکی ہے۔ نیمرانا راجستھان کا وہ تاریخی قلعہ ہے جہاں 1990کی کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے غیر سرکاری افراد پہلی بار سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ کشیدگی کا یہ وہی دور تھا جب کشمیر میں حالات اور جذبات کے بظاہر پر سکون تالاب میں اچانک طوفان آگیا تھا اور ایک زوردار تحریک نے بھارت کے اوسان خطا کردیے تھے۔ نیمرانا مذاکرات میں بتدریج وسعت آتی چلی گئی اور پھر کئی دوسری تنظیمیں اور ادارے بھی خفیہ سفارت کاری کے حوالے سے سرگرام ہوگئے تھے۔ غیر سرکاری افراد کے یہ مذاکرات آخر کار حکومتوں کے درمیان مذاکرات میں ڈھل کر رہ گئے تھے۔ 1991 میں نیمرانا مذاکرات سے شروع ہونے والا عمل واجپائی کی لاہور آمد اور جنرل مشرف کی دہلی روانگی سمیت کئی مراحل سے گزرتا ہوا بہت آگے نکل گیا تھا۔ اب کشیدگی کے ایک بھرپور دور کے بعد بھارت سے جنرل باجوہ کے ریڈ کارپٹ استقبال کی تجویز سامنے آئی ہے اور یہ بے سبب بھی نہیں عین ممکن ہے اس پر کام بھی ہو رہا ہو۔ جنرل باجوہ تو شاید موجودہ حیثیت میں بھارت نہ جائیں مگر آنے والا وزیر اعظم ایک بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ بھارت جا سکتا ہے۔
مسئلہ سرخ قالین بچھانے کا نہیں بلکہ مسائل کو قالین تلے چھپانے کا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ جب سرخ قالین بچھتا ہے تو اس کے نیچے خطے کے سب سے سلگتے ہوئے مسئلے کشمیر کو چھپانے کی نیت کارفرما ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے امن، دوستی اور محبت وتجارت کا جام لبوں تک آنے سے پہلے ہی چھلک پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ بھارت جائیں بھی اور وہاں ان کا پرتپاک استقبال بھی ہوجائے تو یہ جنرل مشرف کے دور کا ایکشن ری پلے ہوگا۔ ایک ناکام کوشش کو دہرانے سے بہتر ہے کہ سرخ قالین بھی بچھے اور اصل مسئلہ قالین کے نیچے نہیں اوپر بلکہ مذاکرات کی میز پر ہو۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اب دل بڑا اور جی کڑا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔