تصویر تیری دیکھ کے رونا وہ بار بار 

896

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب لوگ اخبار پڑھا کرتے تھے۔ کشورِ پنجاب کے ایک شہر میں ایک کالم نگار دوست سے برسوں بعد سرِ بازار ملاقات ہوگئی۔ ہمارا فرض تھا کہ ہم اُن سے اصرار کر کرکے کہتے کہ: ’’آئیے تانوں چاء پلائیے‘‘۔
مگر ہم بوجوہ اپنا یہ فرض اپنے منہ سے (جھوٹے منہ بھی) ادا نہ کرسکے۔ سو، اُنہوں نے خود ہی منہ پھاڑ کر ہماری طرف سے یہ فرض ادا کیا اور ہم سے ہمارا فرض ادا کروانے پر مصر ہوئے: ’’آؤ ہمیں چائے پلاؤ!‘‘
یہ کہتے ہی ہمارا بازو پکڑ کر ہمیں قریبی چائے خانے میں لے گھسے۔ چائے اور اس کے چونچلے منگوانے کے بعد جب پہلی چسکی لی تو ذرا چونچال ہوئے اور لمبی بات شروع کردی۔ بات اُنہوں نے خود شروع کی تھی مگر پھر بات کی باگ اُن کے ہاتھ سے نکل گئی۔ داناؤں کا قول ہے کہ بات، بحث اور عشق شروع کرنے کو تو احمق سے احمق آدمی شروع کرسکتا ہے، مگر ختم کرنے کے لیے بڑی دانائی درکار ہوتی ہے۔
بات شروع یہاں سے ہوئی کہ (اُنہوں نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے) ہم سے بڑے فخر سے پوچھا:
’’آج کل میرے کالم ۔۔۔ جو فلاں اخبار میں چھپ رہے ہیں ۔۔۔ تم پڑھ رہے ہو؟‘‘
بیزاری سے بتایا: ’’ہاں! چار وناچار پڑھنا ہی پڑتا ہے‘‘۔
’چار وناچار‘ پرچونکے اور پھر بگڑ گئے۔ بگڑ کر بولے: ’’چار وناچار کیوں؟ ایسی کیا مجبوری ہے کہ چار و ناچار پڑھتے ہو؟ نہ پڑھا کرو!‘‘
ہم نے وضاحت کی: ’’بھئی اخبار والے جو کچھ نہ پڑھوا دیں، کم ہے۔ پیسے خرچ کرکے اخبار پڑھنے والے قارئین کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ پڑھیں۔ قارئین بڑے مظلوم ہوتے ہیں۔ جو شخص جو کچھ بھی لکھتا ہے، اور اخبارات میں جو کچھ بھی چھپتا ہے، آخر اُن ہی کو پڑھوانے کے لیے تو چھپتا ہے، سو پڑھنا ہی پڑتا ہے‘‘۔
فوراً چھاپنے والوں کی وکالت کرنے پر اُتر آئے۔ (اپنے کالم چھاپنے والوں کی):
’’قارئین سے زیادہ مظلوم تو بے چارے مدیر صاحبان ہوتے ہیں، اُنہیں تو وہ کچھ بھی پڑھنا پڑتا ہے، جو نہیں چھپتا‘‘۔
ہم نے جھٹ پٹ اس مظلومیت کے منہ سے نقاب نوچا: ’’قارئین بے چارے تو سب کا لکھا ہوا اور سب کچھ چھپا ہوا پڑھ کر اپنے پیسے غارت کرتے ہیں۔ جب کہ ایڈیٹر صاحبان یہ الا بلا پڑھ کر پیسے کماتے ہیں، اور یہ پیسے بھی قارئین ہی کی جیب سے جاتے ہیں‘‘۔
اب ہمیں سمجھانے پر اُتر آئے:
’’میاں! ادارت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ مدیر اُسے کہتے ہیں جو بھوسے میں سے چھانٹ چھانٹ کر گندم الگ کرتا ہے‘‘۔
اُن کی یہ بات ہم نے فی الفور تسلیم کر لی: ’’بے شک ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ اس کا اندازہ ہمیں بھی ہے۔ کیوں کہ آج کل کے مدیران چھانٹ چھانٹ کر گندم الگ کر لیتے ہیں اور بھوسا چھاپ دیتے ہیں‘‘۔
اپنا سر پیٹ لیا کہ: ’’تمہارے تو دماغ ہی میں بھوسا بھرا ہوا ہے‘‘۔
سر پیٹ کر فارغ ہوئے تو بولے: ’’آج کل تو بڑے قابل قابل لوگ کالم نگاری کر رہے ہیں‘‘۔ (رُوئے سخن غالباً اپنی ہی طرف ہوگا)۔
ہم نے یہ بھی تسلیم کر لیا۔ کہا: ’’ہاں آں آں آں ۔۔۔ جب آدمی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا تو لکھنے کے ۔۔۔ (یا لکھنے میں) ۔۔۔ بڑا قابل بن جاتا ہے‘‘۔
بھنّا گئے۔ سو، بھنّا کر پوچھا: ’’کیا مطلب؟!!!‘‘
اُنہیں مطلب سمجھایا: ’’بھئی یہ اداریے، فکاہیے، ریٹائرڈ بیورو کریٹوں کے کالم، سرکاری محکموں کی اصلاح کی (بے جا) اُمید پر لکھے جانے والے مراسلات، ہر طرح کے تنقیدی مضامین اور ہجر زدہ شعراء کی دردناک عاشقانہ شاعری، یہ سب کچھ آخر اُن ہی لوگوں کے تو مشغلے ہیں جو بچارے اب متعلقہ کام کر گزرنے کے قابل نہیں رہے‘‘۔
تنقیدی مضامین اور شاعری کا ذکر آیا تو چہک کر بولے: ’’اب تو بہت سی صحافتی تحریروں کا شمار بھی ادب میں کیا جانے لگا ہے‘‘۔
ہم نے تعجب بھرے لہجے میں سوال کیا: ’’کب نہیں کیا گیا؟ ایک دانا کا قول ہے کہ صحافت بھی ادب ہے، مگر یہ ادب بہت جلدی میں معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قلم کار کو ادب بگھار کر کسی ضروری کام سے کہیں جانا ہے‘‘۔
ذرا مسکرا کر بولے: ’’آج کل تو بڑے بڑے اخبارات میں بڑے بڑے مزاح نگار بھی کالم نگاری کر رہے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر اُنہوں نے ایک بہت بڑے اخبار میں لکھنے والے، اُس اخبار سے بھی بہت بڑے، مزاح نگار کا نام لیا۔ ہم نے عرض کیا:
’’ایسے مزاح نگاروں کو پڑھ کر تو نہیں، البتہ دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہُشیار مدیرانِ اخبار ایسے ہر کالم نگارکی تحریر کے ساتھ اُس کی تصویر بھی چھاپا کرتے ہیں‘‘۔
قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ کہنے لگے: ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ مگر بعض کالم نگاروں کی تصویر دیکھ کر اُن پر ہنسی آجانے کے بعد ترس بھی آنے لگتا ہے کہ دیکھو اچھے بھلے شخص کی فوٹو گرافر نے کیا گت بنادی۔۔۔ بلکہ کیا دُرگت بنادی‘‘۔
ہم نے بھی تائید کی: ’’غالباً اُن کی ایسی تصویر چھاپ کر خود ادارے کی طرف سے بھی قارئین کے حضور یہ ’اعتذار‘ پیش کرنا مقصود ہوتا ہوگا کہ تحریر بھی ترس کھا کر ہی چھاپی جارہی ہے۔ اُن کا کام دیکھ کر نہیں، بلکہ ان نام وَروں کا نام دیکھ کر۔۔۔ پس قارئین کا بھی یہی حال ہوتا ہے:
تصویر تیری دیکھ کے رونا وہ بار بار
رونے کے بعد پھر تِری تصویر دیکھنا
اگر اس شعر میں ’’تصویر‘‘ کے لفظ کو ’’تحریر‘‘ سے تبدیل کر دیا جائے تب بھی صادق ہی آئے‘‘۔
اب تو وہ ہماری ہر بات کی تائید کیے جارہے تھے۔ فرمایا: ’’تصویروں سے نہیں، قلم کار اپنی تحریروں سے نام وَر ہوتا ہے‘‘۔
عرض کیا: ’’تسلیم! مگر ایسے قلم کار بھی چَھپے لے جارہے ہیں جو ابتداءًً گمنام تھے، مگر ابھی دو چار تحریریں ہی چھپی ہوں گی کہ پہلے سے بھی زیادہ گمنام ہوگئے‘‘۔
ماحول خوشگوار پاکر اُنہوں نے ایک مشہور و معروف و مقبول اور اپنے اسّی سالہ پسندیدہ کالم نگار کا نام لے کر پوچھا: ’’اُن کی تحریروں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے عرض کیا: ’’ارے اُن کی کیا بات کرتے ہو؟ اُن کی تحریریں تو اک عمر تک پڑھی جانے کے قابل ہیں۔۔۔‘‘
اتنا کہا اور فقرہ نامکمل چھوڑ کر اُن کی طرف دیکھا تو آنکھیں میچے خوشی سے جھوم رہے تھے۔ اب ہم نے فقرہ مکمل کر دیا:
’’۔۔۔ 16سال سے لے کر 26 سال کی عمر تک‘‘۔
فقرہ سن کر چونکے اور چونک کر بھڑکے۔ پھر بھڑک کر جلے بھُنے لہجے میں بولے:
’’تمہیں تو ہر اُس شخص سے چڑ ہے جسے اللہ نے لکھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے‘‘۔
ہم نے تردید کرتے ہوئے کہا: ’’ہر شخص سے نہیں، صرف اُن اشخاص سے جنہیں اللہ نے سوچنے کی صلاحیت سے نہیں نوازا‘‘۔
غضبناک ہوکر کہنے لگے: ’’بندۂ خدا! ۔۔۔ اگر لکھنے والے اِس لت میں مبتلا ہوگئے تو لکھیں گے کیا خاک؟ آدمی ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے، یا تو سوچے یا لکھے۔ تم نے سنا نہیں؟ ۔۔۔ ’سوچی پَیا تے کمّوں گیا‘ ۔۔۔ سوچ میں پڑا تو کام سے گیا‘‘۔