دوقومی نظریہ‘ پاکستان اور سرسید

1069

سرسید کو دو قومی نظریے کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر سرسید کے اندھے مقلد کہتے ہیں کہ نہ سرسید ہوتے، نہ دو قومی نظریہ اور نہ پاکستان۔ بدقسمتی سے یہ خیالات جتنے عام ہیں اس سے زیادہ غلط ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں دو قومی نظریے کے حقیقی بانی حضرت مجدد الف ثانی ہیں۔ وہ پہلی بڑی مسلم شخصیت ہیں جنہوں نے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے جداگانہ تشخص کی نشاندہی کی۔ اس پر اصرار کیا۔ یہاں تک کہ وہ جہانگیر کے خلاف صف آرا ہوگئے، مجدد الف ثانی کی شخصیت اتنی بڑی اور ان کا عوام پر ایسا اثر تھا کہ جہانگیر کو مجدد الف ثانی کی بات ماننی پڑی اور اس نے اپنے دربار میں اسلامی شعائر کو بحال کرنے ہی میں عافیت جانی۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کش مکش اپنی اصل میں سیاسی نہیں مذہبی تھی۔ اورنگ زیب کو معلوم تھا کہ داراشکوہ ہندو ازم سے بے انتہا متاثر ہوگیا ہے اور اسے اقتدار ملا تو برصغیر میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ چناں چہ اس نے داراشکوہ اور اس کے سرپرست شاہ جہاں کی مزاحمت کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مجدد الف ثانی نے ایک صوفی ہو کر جو کام کیا تھا اورنگ زیب نے ایک شہزادے کی حیثیت سے وہی کام کیا۔ اس طرح اورنگ زیب مجدد الف ثانی کے بعد دو قومی نظریے کا دوسرا علمبردار تھا۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں ہماری ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں ’’تاریخی حقائق‘‘ ہیں۔ ورنہ کہنے کو تو قائد اعظم نے یہ تک کہا ہے کہ پاکستان اُسی دن بن گیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔
جہاں تک سرسید کا تعلق ہے وہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ ایک زمانے میں ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ مگر تاریخ کے ایک مرحلے پر ہندو رہنماؤں نے اردو کی مخالفت اور ہندی کی حمایت کی تو ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں سرسید کے خیالات اسی طرح بدل کر رہ گئے جس طرح پہلی گول میز کانفرنس میں کانگریس کے رہنماؤں کے خیالات سُن کر محمد علی جناح کے خیالات بدل کر رہ گئے تھے۔ اردو کے خلاف کانگریس کے رویے کو دیکھتے ہوئے سرسید نے اپنے شاگرد اور دوست مولانا الطاف حسین حالی سے جو کچھ کہا وہ مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں یہ تھا۔
’’سرسید کہتے تھے یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ چلنا محال ہے‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 236)
اسی سلسلے میں سرسید نے 1870 میں نواب محسن الملک کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر کیا۔
’’ایک اور خبر مجھے ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو یشو پرشاد صاحب کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آیا ہے کہ زبان اردو خط فارسی کو جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹادیا جائے۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے ہندو ممبروں سے تحریک کی ہے کے بجائے اخبار اردو کے ہندی میں ہو تو ترجمہ کتب بھی ہندی میں ہو‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ236)
سرسید اور حالی کے ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ سرسید کا مشہور زمانہ ’’دوقومی نظریہ‘‘ مذہب پر نہیں زبان پر کھڑا ہوا ہے۔ حالاں کہ اصل دو قومی نظریہ بنیادی طور پر مذہب سے وجود میں آیا ہے۔ بلاشبہ اردو بھی برصغیر میں مسلم تشخص کا اہم جزو ہے مگر مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے طویل سفر میں اپنے تشخص کے حوالے سے عربی اور فارسی پر اصرار نہیں کیا تو اردو پر کیا اصرار کرتے؟۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کا دوقومی نظریہ اگر ہم اسے یہ نام دیں تو اپنی اصل میں ’’لسانی‘‘ ہے۔ روحانی یا مذہبی نہیں اور مسلمانوں کے لیے لسانی اعتبار سے دو قومی نظریہ کا حامل ہونا بے معنی بات ہے۔
اردو کے حوالے سے سرسید کے دو قومی نظریے کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سرسید کو اردو سے بڑی محبت ہوگی۔ بلاشبہ ایک زمانے میں ایسا ہی تھا مگر جس طرح سرسید نے مذہب اور تہذیب کے بارے میں اپنے بہت سے خیالات کو ترک کردیا تھا، اسی طرح انہوں نے ’’اردو کی محبت‘‘ کو بھی ’’طلاق‘‘ دے دی تھی۔ اس طلاق کو ہم ایک سے زیادہ مرتبہ انہی کالموں میں بیان کرچکے مگر سرسید کے لسانی دو قومی نظریے کے حوالے سے ان الفاظ کو ایک بار پھر پیش کیے دیتے ہیں۔ سرسید نے اردو سمیت تمام مقامی زبانوں کی ایسی تیسی کرتے ہوئے لکھا۔
’’اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں۔ تمام مشرقی علوم کو نسیاً مسیاً کردیں، ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 207)
اصول ہے اصل گیا تو اس کا حاصل بھی گیا۔ سرسید کی اصل اردو تھی۔ سرسید نے اردو کو ترک کرکے انگریزی اور فرانسیسی کو گلے لگا لیا تو اردو سے نمودار ہونے والا دو قومی نظریہ بھی ختم اور دفن ہوگیا۔ اس کے بعد کہاں کے سرسید کہاں کا دو قومی نظریہ اور کہاں کا پاکستان؟۔
سرسید کے ’’دو قومی نظریے‘‘ کی ایک بڑی مضحکہ خیزی یہ بھی ہے کہ سرسید کو ہندی کے مقابلے پر تو اردو عزیز ہے اور انہیں اس کے حوالے سے خیال آتا ہے کہ یہ ہمارے جداگانہ تشخص کی علامت ہے مگر انہیں انگریزی اور فرانسیسی کے حوالے سے یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارا تشخص ان زبانوں سے نہیں بلکہ اردو سے متعین ہوتا ہے۔ انہیں انگریزوں کے حوالے سے کبھی خیال نہ آیا کہ مسلمان انگریزوں سے جدا ایک قوم ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ اپنے دو قومی نظریے کے تحت وہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ کرنا چاہتے تھے مگر مسلمانوں کو انگریزوں کی کاربن کاپی یا فوٹو اسٹیٹ بنانے کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ خدا ایسے ’’دوقومی نظریے‘‘ سے مسلمانوں اور پاکستان کو اپنی پناہ میں رکھے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ سرسید کا ’’دو قومی نظریہ‘‘ صرف ہندوؤں سے متعلق کیوں تھا انگریزوں سے متعلق کیوں نہیں تھا؟۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرسید کی نفسیات، طاقت، مرکز یا Power Centric تھی۔ مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوؤں کے ’’آقا‘‘ رہے تھے اور ہندو مسلمانوں کے ’’غلام‘‘۔ اس کے برعکس انگریز مسلمانوں کے ’’آقا‘‘ تھے اور مسلمان ان کے ’’غلام‘‘۔ بعض لوگ اس بات کو ’’خیالی پلاؤ‘‘ سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں سرسید کی تحریر کا ایک اقتباس پیش ہے۔ سرسید نے لکھا۔
’’بے شک ہماری قوم ذلت کے گڑھے میں گر پڑی ہے لیکن اگر ہمارے بنگالی دوست (یعنی ہندو) یہ چاہیں کہ وہ اس ازیا افتادہ قوم کو اپنی جوتیوں کے تلے مسل ڈالیں تو ان کو یہ توقع نہ رکھنی چاہیے، ہم اس کو برداشت کرلیں گے۔ ان کو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مثال ایک ایسی رسّی کی ہے جو بے شک جل گئی ہے مگر اس کا بل نہیں نکلا۔ وہ بدستور اس میں باقی ہے اور ابھی وہ بالکل ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی ہے۔ اس میں گرمی باقی ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ254)
سرسید اس اقتباس میں ہندوؤں کو بتارہے ہیں کہ بے شک مسلمان حکمران نہیں رہے مگر حکمرانوں والی خصوصیات اب بھی ان میں باقی ہیں۔ رسّی جل گئی ہے مگر اس کا بل نہیں گیا ہے کا یہی مفہوم ہے کاش سرسید انگریزوں کے سلسلے میں بھی یہی بات کہہ سکتے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ دو قومی نظریہ مذہب سے نمودار ہونے والی ایک حقیقت ہے اور سرسید کا ’’دوقومی نظریہ‘‘ ایک سطح پر اردو سے متعلق تھا اور دوسری سطح پر آقا اور غلام کی نفسیات اس کا مرکز تھی۔ مطلب یہ کہ سرسید مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو مذہب سے معلق نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں سرسید کی تقریروں کے دو اقتباسات پیش ہیں۔ سرسید نے 1884ء میں پنجاب کا دورہ کیا۔ اس دورے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔
’’لفظ ’’قوم‘‘ سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے۔ یہی وہ معانی ہیں جس میں لفظ نیشن (Nation) کی تعبیر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ امر چنداں لحاظ کے قابل نہیں کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے کیوں کہ ہم اس کی کوئی بات نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن جو بات کہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سب خواہ ہندو ہوں یا مسلمان ایک ہی سرزمین پر رہتے ہیں۔ ایک ہی حاکم کے زیر حکومت ہیں۔ ہم سب کے فائدے کے مخرج ایک ہی ہیں۔ ہم سب قحط کی مصیبتوں کو برابر برداشت کرتے ہیں‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 239)۔
ایک اور مقام پر سرسید نے فرمایا ’’صاحبو اب وہ زمانہ نہیں کہ صرف مذہب کے خیال سے ایک ملک کے باشندے دو قومیں سمجھی جائیں‘‘۔
(نقش سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ240)۔
سرسید کے ان تبصروں سے ظاہر ہے کہ سرسید کے دو قومی نظریے کا مذہب سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرسید عہد حاضر میں مذہب کو قوم کی تعریف کے سلسلے میں اہم ہی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ قوم کی تعریف کے حوالے سے ان کے لیے جغرافیہ اہم تھا۔ ایک حکومت اہم تھی، مسائل اور مصیبتیں اہم تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر اردو اور فارسی کے خلاف صف آرا نہ ہوتے تو سرسید کو اپنے نام نہاد دو قومی نظریے کا خیال بھی نہ آتا اور وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں تصور کرتے رہتے۔ ان حقائق سے ظاہر ہے کہ نہ سرسید دو قومی نظریے کے ہامی تھے نہ ان کا دو قومی نظریہ مذہب سے متعلق تھا اور نہ سرسید کی ذاتِ والا صفات کا تخلیق پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔