پابندی لگانے اور اٹھانے کا کھیل 

617

عدالت عالیہ اسلام آباد کے سنگل بینچ نے حکم دیا تھا کہ رمضان المبارک میں انعامات بانٹنے کے نام پر ٹی وی چینلز پر ہونے والے پروگرام بند کردیے جائیں اور پانچ وقت کی اذان نشر کی جائے۔ ابھی لوگ اس فیصلے پر خوش ہی ہو رہے تھے کہ عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے اس حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کردیا۔ سنگل بینچ کے فیصلے میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کا حکم بھی دیا گیا تھا لیکن پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن اور نجی ٹی وی نے اس کے خلاف اپیل دائر کردی جس کی سماعت عدالت عالیہ اسلام آباد کے جج عامر فاروق اور محسن اختر نے کی اور رمضان المبارک میں تمام چینلز پر 5 وقت کی اذان نشر کرنے اور مغرب کی اذان سے قبل اشتہارات نشر نہ کرنے کا حکم معطل کردیا۔ عدالت نے پاکستان ٹی وی چینلز پر غیر ملکی مواد ( بھارتی فلمیں اور ڈرامے) نشر نہ کرنے اور پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے وزارت داخلہ کی کمیٹی کے قیام کا حکم بھی معطل کردیا ہے۔ دو رکنی بینچ کے حکم نامے میں کہا گیاہے کہ سنگل رکنی بینچ کے حکم نامے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ چنانچہ اب نجی ٹی وی چینلز بلا خوف و خطر انعامات بانٹنے کے نام پر اس مقدس مہینے کی مبارک ساعتیں بے ہودگی اور لالچ کے فروغ میں ضائع کرتے رہیں گے۔عدالت عالیہ اسلام آباد کے سنگل بینچ کے فیصلے کو عوام کی اکثریت نے سراہا تھا لیکن اس پر عمل کرنے میں ٹی وی چینلوں کے اشتہارات مارے جارہے تھے۔ اب دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ معطل کردیا تو کیا تین رکنی بینچ اسے بحال کردے گی۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے فاضل جج نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا مگر اب یہ عدالتی تنازع بن گیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر دین اور شریعت سے آگہی کے کچھ پروگرام بھی فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایک نام نہاد ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام ہیں جو صرف شر پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ اس شخص کی علمی قابلیت ہی مشکوک ہے اور یہ خود ساختہ مذہبی اسکالر ہے۔ 24مئی کو اس نے اپنے پروگرام میں اہل حدیث اور بریلویوں کو لڑانے کی بھرپور کوشش کی ہے جس پر پیمرا نے اس پر پابندی لگادی ہے اور بول چینل کے سی ای او کے نام جاری حکم نامے میں عامر لیاقت کی میزبانی میں چلنے والے پروگراموں پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن عامر لیاقت اپنی فطرت سے باز نہیں آئے گا۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک مجلس میں خلفائے راشدون کی توہین کرچکا ہے۔ مذکورہ پروگرام میں و ہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نام لے کر آیا جس کا کوئی تعلق پروگرام سے نہیں تھا اور اس بہانے وہ مہمان اہل حدیث عالم پر برس پڑا اور کوکب نورانی نے بھی ساتھ دیا جس سے صاف لگتا ہے کہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔عامر لیاقت پر پہلے بھی جزوی طور پر پابندیاں لگ چکی ہیں لیکن اصل پابندی تو ٹی وی چینلز پر لگنی چاہیے جو اسے کمائی کا ذریعہ بنا کر پروگرام دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دن بعد پیمرا اس پر پابندی اٹھالے اور پھر یہی کھیل شروع ہو جائے۔ عامر لیاقت آج تک یہ بھی ثابت نہیں کرسکا کہ وہ کس قسم کا ڈاکٹر ہے اور اگر پی ایچ ڈی ہے تو یہ ڈگری کب اور کہاں سے لی۔ وہ محض چرب زبان ہے اور اسی کی کمائی کھاتا ہے۔