بیسواں یوم تکبیر اور ہماری سیاست

446

آج ہم ایٹمی دھماکوں کی بیسویں سالگرہ منا رہے ہیں یہ دن ہماری قومی تاریخ میں بہت اہمیت اور نمایاں مقام رکھتا ہے اس دن مسرت اور شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جس نے پاکستان کو دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ریاست بننے کا اعزاز بخشا‘ خوشی اور مسرت کے ان لمحات میں زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں انہیں یاد رکھتی ہیں اور انہیں شاندار الفاظ میں نذرانہ عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتی ہیں، جن کی لازوال قربانیوں کے باعث پاکستان کو یہ مقام ملا۔
ایٹمی پروگرام کے آغاز سے لے کر ایٹمی دھماکوں تک‘ ہمارا کہوٹا بہت سے امتحانوں سے گزرا ہے‘ بھارت اور اسرائیل نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ پاکستان کو اپنا ہدف بنائے رکھو تاکہ وہ دفاعی نظام کو مضبوط نہ بناسکے‘ اسی لیے ان دونوں نے سازشیں بھی کیں اور سیاسی بحران بھی پیدا کیے رکھا، کسی سیاسی اختلاف کو ایک جانب رکھ کر بات کی جائے تو بھٹو حکومت اور بعد میں ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کے چل چلاؤ نے بھی جہاں ہلچل مچائے رکھی وہیں ہماری ریاست کو سنبھالنے والی قوت نے قومی سلامتی کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا‘ ہمارا ایٹمی پروگرام بلاشبہ عوام‘ سیاسی حکومتوں‘ فوج اور ایٹمی سائنس دانوں کی ٹرائکا کی وجہ سے تکمیل کو پہنچا 1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کرکے جنوب ایشاء کے اس خطہ میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا تھا جسے ختم کرنے کے لیے پاکستان کو پر عزم‘ باہمت اور دور اندیش لیڈر شپ کی ضرورت تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان آنے کی دعوت کی شکل میں ہمیں میسر آئی عظیم سائنس دان کی محنت‘ عزم اور جذبے کے باعث ہم 1986 میں نہایت مشکل حالات میں بھارتی دھماکوں کے بارہ سال بعد ایک ناقابل تسخیر جوہری قوت بن جانے کے قابل ہوئے اور اس سے اگلے سال ہم نے ایٹمی ہتھیاروں کو ایف سولہ طیاروں میں لے جانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی یہ صلاحیت ہم نے 250 ملین امریکی ڈالرز کی لاگت سے بھی کم میں حاصل کی اور اس کی وجہ حب الوطنی کا جذبہ تھا بھارت نے 1998 میں ایک بار پھر ایٹمی تجربہ کیا جس کا جواب پاکستان نے چھ زور دار ایٹمی دھماکوں کی صورت میں دیا‘ چاغی کا پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑا اور فضا میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی یوں ہم الحمدللہ ایٹمی قوت بن گئے اور جس سے ہماری ایٹمی صلاحیت دنیا پر واضح ہوگئی اور ہمارا ملک ایٹمی ملک بن گیا۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہی بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ: ’’جنوب ایشاء میں اب طاقت کا توازن قائم ہوگیا ہے‘‘۔ ایٹمی مزاحمت کی صلاحیت کے لیے پر عزم سیاسی قیادت چاہیے ہماری سیاسی قیادت اور جرأت مند سائنس دانوں کے باہمی اشتراک سے ہمیں یہ منزل ملی کہ ہم دنیا میں ایٹمی ملک کہلائے ہیں ہم یہ منزل پانے والے دنیا کے چھٹے ملک ہیں اور ہماری سیاسی حکومتوں کی برطرفیاں بھی اس منزل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکیں یہ سفر اپنے عزم کے ساتھ جاری رکھا گیا ہماری سیاسی حکومتیں اس سفر میں شانہ بشانہ ساتھ چلتی رہی ہیں۔ 1990 جو پاکستان کو سرحدوں پر خطرات کا سامنا تھا اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ایف سولہ طیاروں میں ایٹمی ہتھیار لیس کرکے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا تھا‘ 1998 میں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے۔
آج کے دور میں ایٹمی طاقت ہونا‘ طاقت کے توازن کو قائم رکھنے میں بڑا مدد گار ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو یہ مقام اللہ تعالیٰ نے عطاء کیا ہے اس خطہ میں ایٹم بم ہونے کی وجہ سے پہلے حملہ کرنے کا نظریہ ہماری دفاعی پالیسی کا سب سے اہم نکتہ ہے اس کا مطلب جارحیت نہیں بلکہ اپنا حقیقی دفاع ہے۔ پاکستان میں ایٹمی نظام باقاعدہ کنٹرول اینڈ کمانڈ کے تحت کام کرتا ہے یہ نہایت جامع اور فول پروف نظام ہے نائن الیون کا واقعہ بہت بڑا حادثہ تھا اس کے بعد دنیا کا سیاسی نقشہ اور ترجیحات میں بہت بڑے پیمانے بہت تبدیلیاں ہوئیں‘ اسی لیے 2004 میں ایک نئی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جب ڈاکٹر قدیر خان نظر بند ہوئے‘ ڈاکٹر صاحب واحد پاکستانی ہیں جنہیں نشان پاکستان دو بار عطاء کیا گیا ہے انہیں ہلال پاکستان کا اعزاز بھی ملا ہے ان کی نظر بندی کے فیصلے نے ملک میں بد دلی پیدا کی‘ اور ملک میں ایک بحرانی کیفیت بنی لیکن ہمارے عزائم کی راہ نہیں روکی جاسکی‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کا یہ جرم کبھی اور کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی نظربندی کے خلاف اس وقت بھی ایم ایم اے نے بڑی مزاحمت ظاہر کی تھی‘ چودھری شجاعت کی حکومت اور ان کی قاف لیگ پرویز مشرف کے سامنے بکری بنی ہوئی تھی آج مسلم لیگ قاف میم لام والے سب خود کو ہیرو سمجھتے ہیں اس وقت یہ دبک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر قدیر جیسی عظیم شخصیت کو نظر بند کرنے والے واقعی غدار کہلانے کے قابل ہیں ان دنوں ایک بڑا ہی دل دکھانے والا واقعہ یہ بھی ہوا کہ ایک تقریب میں اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے ڈاکٹر قدیر کو اگلی صفوں سے اٹھاکر تقریب کی پچھلی صف میں جا بیٹھنے پر مجبور بھی کیا تھا۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں کے باعث بلاشبہ یہ واقعی بہت کڑا وقت تھا اور سخت آزمائش تھی ان کی نظر بندی سے کچھ عرصہ قبل کہتے ہیں کہ اس وقت کے ائر چیف مصحف علی میر بھی کسی سازش کے تحت ہی حادثے کا شکار ہوئے ہیں وہ بھی ایٹمی دھماکوں کے بہت زبردست ہامی تھے اس وقت دنیا میں ایک بار پھر بحرانی کیفیت ہے‘ شام‘ لبنان‘ کی صورت حال ہمارے سامنے ہے‘ یمن سعودی عرب تنازع بھی الجھاؤ کا نقشہ ہمارے سامنے رکھے ہوئے ہے یہ وہ وقت ہے ہمیں ملک میں یک جہتی‘ اتحاد اور باہمی اعتماد پیدا کرنے بلکہ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں بدلتے ہوئے حالات کے باعث جو خطرات ہمارے مسائل بنیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے کوئی بھی ملک‘ کتنا بھی طاقت ور بن جائے‘ قوم کے اتحاد کے بغیر ترقی کرسکتا ہے اور نہ دنیا میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اللہ تعالی نے ہمیں ایٹمی قوت بنایا ہے اب ہمیں ایک قوم بھی بننا ہے میری دعاء ہے کہ ہم ایک قوم بن جائیں اور دنیا پر اپنے علم کی صلاحیت اور قابلیت کی بدولت حکمرانی کریں۔