پانچ سال کی کارگزاری

289

پارلیمنٹ پانچ سال کی اپنی آئینی مدت مکمل کرکے تحلیل ہونے جارہی ہے‘ یقیناًان پانچ سال کا حساب بھی اسے دینا ہوگا‘ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں‘ سیاسی اور جمہوری فیصلہ تو عوام کو کرنا ہے جمہوریت کی خوبیاں بھی بہت ہیں خرابییوں اور خامیوں کی بھی کمی نہیں‘ علامہ نے یہی تو کہا کہ جمہوریت میں گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا‘ انتخابات میں بھی عوام نے کب تول کر ووٹ دیا ہے‘ اس میں بھی ساری ذمے داری سیاسی جماعتوں کی اپنی ہے وہ عوام میں وہ شعور پیدا نہیں کر سکیں جو ایک حقیقی جمہوری رویے کی بنیاد ہے لہٰذا وہ جب بھی انتخابات میں ڈول ڈالتی ہیں اور نتائج بھی ویسے ہی ملتے ہیں‘ اس سال پھر انتخابت ہونے والے ہیں‘ اور انتخاب ہوگا تو ظاہر ہے کہ نتائج بھی آئیں گے‘ نئی حکومت بھی بنے گی‘ پہلے کہا جاتا تھا کہ مدت پوری نہیں کرنے دی جارہی‘ اب یہ اعزاز ملا ہے تو کارکردگی کہاں ہے؟
دوہزار تیرہ کے انتخابات میں منتخب ہونے والی اسمبلی اب اپنی مدت مکمل کرچکی ہے اور عالمی بینک کی رپورٹ بھی سامنے پڑی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شرح سود میں نصف فی صد اضافہ، مالی خسارہ بڑھ گیا۔ مہنگائی بھی بڑھے گی۔ میکرو اکنامک صورت حال کا قلیل مدتی استحکام پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ مالی خسارہ 4.1 سے بڑھ کر 5.5 فی صد ہوگیا، اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کا اجراء۔ 80 فی صد سے زاید پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے کم ہے۔ غذائی افراط زر سے 80 فی صد شہری متاثر ہوتے ہیں۔ مہنگائی میں غیر معمولی اضافے سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے‘ یہ عالمی بینک کی رپورٹ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے‘ دس ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں دے کر جارہی ہے‘ دعویٰ کرتی ہے کہ دہشت گردی ختم کی ہے‘ کراچی میں امن دے کر جارہی ہے لیکن دوسری جانب معاشی میدان کے حقائق یہ ہیں کہ اس وقت ملک کو سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے جس کساد بازاری، معاشی بدحالی اور مہنگائی کا سامنا ہے اس سے سب سے زیادہ غریب عوام متاثر ہو رہے ہیں۔
عالمی بینک کی طرح اسٹیٹ بینک نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی کے اجرا کے ساتھ خبردار کر دیا تھا کہ شرح سود میں اضافے سے مالی خسارہ بڑھے گا اور اگلے مالی سال کے لیے شرح نمو جو 6.2 مقرر ہے اس ہدف کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کی معیشت کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے سلسلے میں بھی سخت دباؤ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے معاشی صورت حال مزید دھماکا خیز ہوگئی ہے‘ جب تک تیل سستا ملتا رہا‘ حکومت نے بھی خوب عیش کی‘ بوجھ عوام نے برداشت کیا اب خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے بھی مہنگائی کا طوفان ہمارے سامنے ہے جو کچھ بھی عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ہمارے لیے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے رپورٹ کہتی ہے کہ 80 فی صد سے زیادہ پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر سے بھی کم ہے‘ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات تو نہیں‘ برسوں سے یہ بات سنتے چلے آرہے ہیں بس اعداد وشمار میں فرق رہا کوئی شبہ نہیں کہ یہ رپورٹ انتہائی افسوس ناک صورت حال کی نشاندہی کر رہی ہے یہی غریب لوگ اپنی روزانہ آمدنی کا 80فی صد حصہ اپنی خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں جس کے بعد ان کے پاس صحت، تعلیم ودیگر اخراجات کے لیے کچھ نہیں بچتا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ہماری آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اور ان کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
مہنگائی کا سب سے بڑا شکار بھی یہی 80فی صد لوگ ہوتے ہیں۔ اگر یہی معاشی صورت حال جاری رہی تو پھر ملک میں بے رحم انقلاب کی راہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ حالات اسی نہج کی طرف جا رہے ہیں ہمارے معاشی ماہرین اور حکومتوں کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ 80 فی صد عوام کے وسائل اور ذرائع آمدنی میں بہتری لانا ہوگی۔ اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو یہ خطرناک صورت حال کسی بھی وقت سب کچھ تہہ و بالا کردے گی‘ یہ عوام کی بات ہے‘ خواص کی بات بھی سن لیں‘ یہی خواص اداروں میں پالیسی ساز ہیں انہوں نے عوام کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ جو چھوڑا ہے وہ بھی سن لیں‘ سرکاری اداروں کارپوریشنوں نے قرض لینے میں حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا 30 فی صد اضافے سے ایک سال میں 262 ارب 80 کروڑ کے نئے قرض لیے گئے قرض کا یہ حجم تاریخ کی بلند ترین سطح 15 کھرب 13 ارب پر پہنچ گیا۔
قرضوں کے اجرا کے حوالے سے حکومت کی گڈگورننس کے دعویٰ کیا گیا یہ سرکاری اداروں نے جس طرح قرض لیا اسے بدقسمتی ہی کہا جانا چاہیے قرض کے باوجود یہ سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں میں وہ ادارے سرفہرست ہیں جو مسلسل خسارے میں ہیں۔ پی آئی اے کی بات کرتے ہیں‘ سب سے بڑا مقروض ادارہ ہے جس نے ایک سال کے دوران 39 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا اس کا قرض148 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے بعد واپڈا ہے جس نے 38 ارب کا مزید قرض لیا اس کے قرض کا حجم 124 ارب روپے ہے۔ تیسرا نمبر اسٹیل ملز کا ہے‘ قرض کا حجم 43 ارب 20 کروڑ ہے حکومت یہ قرض اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے‘ یہ قرض اتارنے کے لیے حکومت کو مذید قرض لینا پڑتا ہے‘ یہی جواب ہمیشہ قومی اسمبلی کے سامنے رکھا گیا بیرونی قرضے مع سود ادا کرنے ہوتے ہیں ملک پر قرضوں کا یہ بوجھ ہماری معیشت کو کہاں لے جارہا ہے؟ عوام ہیں کہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے باہر نکل ہی نہیں رہے‘ مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ان تینوں میں کسی نے قرض کا بوجھ ختم کرنے کی کوئی قابل عمل پالیسی نہیں دی‘ ہاں یہ ضرور کیا کہ دھرنے دیے‘ اور اپنی باری آنے کا دعویٰ کیا کسی نے یہ نہیں سوچا کہ قرضوں کے حجم سے نجات نہیں پاتے ملکی معیشت کے استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا‘ آخر کب تک؟ ۔