خلل ہے دماغ کا۔۔۔ اور خلوت کا بھی!

932

ایک شام ہم اسلام آباد کی ایک ایسی شاہراہ پر قدم بہ قدم منزلیں مارتے گھر جارہے تھے جو دونوں طرف سے سرسبز وشاداب درختوں سے گھری ہوئی اور قدرے سنسان تھی۔ اس سنسانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم فکرِ سخن میں غلطاں وپیچاں وشاداں وفرحاں چلے جارہے تھے کہ یکایک دہل کر رہ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سڑک کے بائیں پیادہ رَو (Foot Path) پر، کہ جس پر ہم بھی پا پیادہ چلے آ رہے تھے، جنگل کی طرف کو منہ کیے لمبا‘ تڑنگا‘ کالا بھجنگ اور ملنگ قسم کا ایک افریقی پہلوان کھڑا تھا۔ صرف کھڑا ہی نہیں تھا، ہاتھ ہلاہلا کر اور خوب چِلّاچِلّا کر نہ جانے کس قصور کی پاداش میں گرین بیلٹ پر لگے ہوئے بے قصور پودوں اور درختوں سے خطاب کیے جاتا تھا۔ ذرا غور سے سُننے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ (انتہائی) جنوبی افریقا کی کسی لپکتی ہوئی زبان میں ان بے زبانوں کے آگے زبان درازی اور شعلہ بیانی کیے جارہا ہے، باز ہی نہیں آرہا ہے۔ ارے صاحبو! ہماری تو گھگھی بندھ گئی۔
متعدد افریقی ممالک کے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اِسلام آباد میں اقوامِ متحدہ کے وظائف پر پَل رہی ہے۔ اس پلی ہوئی قوم کو ڈالروں میں وظیفہ ملتا ہے۔ اپنے ملک میں ہونے والی طویل خانہ جنگی اور پریشان کُن ملکی حالات سے تنگ آئے ہوئے یہ لوگ پہلے ذہنی طور پر منتشر ہوئے، پھر دُنیا بھر میں منتشر ہوگئے۔ بعض مقامات پر خود بھی انتشار کا باعث بنے۔ جس کے جہاں سینگ سمائے، وہیں سما گیا ہے۔ پاکستان میں سمائے ہوئے ایسے اکثر پناہ گزین اپنے پیٹ کو سماوار بنا کر اُس میں ہیروئین سموئے ہوئے ہمارے ملک سے بھاگتے ہوئے (عین ہوائی اڈّے پر) پکڑے جاتے ہیں۔ خدا جانے کیوں پکڑے جاتے ہیں؟ اگر نہ پکڑے جائیں تو کم ازکم پاکستان سے تو ہیروئن سمیت باہر نکل جائیں۔ پکڑ کر پھر پاکستان ہی میں بند کردیے جاتے ہیں کہ بھاگتے کدھر ہو؟ بھانت بھانت کے اِسی چڑیا گھر میں خود بھی بھگتو اور ہمیں بھی بھگتواتے رہو۔
پس، ہم نے اپنی بندھی ہوئی گھگھی اور اپنے دہلے ہوئے دِل کو تھاما‘جسے اِس خطرے سے بچنے کی فکر لگ گئی تھی کہ کہیں نباتات وجمادات وحشرات سے خطاب کرنے والا یہ پُرجوش خطیب اپنے جوشِ خطابت میں (مزید) دیوانہ ہو کر ہم پرہی نہ چھا جائے۔ (مخبوط الحواس آدمی کا کیا بھروسا؟) سو‘ پہلے تو ہم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔ پھر پیادہ رَو پر سے فی الفور سڑک پر اُترآئے۔ علمِ ہندسہ (Geometry) کی رُو سے شخصِ مذکور کو مرکز مان کر دائیں جانب کو ایک طویل نیم دائرہ بنایا اور گھوم کر اپنے بائیں جانب پھر واپس آئے۔ واپس آکر سڑک سے دوبارہ اُسی پیدل رستے پر جا چڑھے، جس سے اُترے تھے۔ جا چڑھنے کے بعد عالمِ خوف میں پلٹ کر احتیاطاً پیچھے بھی دیکھ لیا۔ موصوف اب تک وہیں کھڑے، اپنے دائیں کان پر اپنا دایاں ہاتھ چِپکائے اور بایاں ہاتھ ہوا میں لہرا لہرا کر اور خوب ہِلا ہِلاکر نہایت جوش وخروش سے کوئی احتجاجی تقریر کیے جارہے تھے۔ گاہ بگاہ بہ آوازِ بلند نعرے بھی مارتے جاتے تھے۔ ہم کہ جو اَب تک گوش بر آواز تھے اُن کو ’’دست بگوش‘‘ دیکھا تو ہماری بندھی ہوئی گھگھی کھل گئی۔ ہم کھِل گئے۔ ابھی ہم نے کل ہی ایک بار پھر اپنے موبائل پر پڑھا تھا کہ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ: ’’موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں اُن سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے‘‘۔
دماغ کو نقصان پہنچے ہوئے لوگوں کی تعداد اب سڑکوں پر بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بہ آوازِ بلند خود کلامی کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھے بغیر چلتے چلے جاتے ہیں۔ چلتے چلتے کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی ہم قدم، کوئی ہمراہی ہمارے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے، یکایک بہت بلند آواز میں‘ بڑی خوش اخلاقی اور نہایت تپاک سے، ہمارے کان پر نعرہ مارتا ہے:
’’آآآس سّلامُ علیکم!‘‘
ہم گھبرا کر اُتنی ہی بلند گوئی‘ اُتنی ہی خوش اخلاقی اور اُتنے ہی تپاک سے پُرجوش جواب دیتے ہیں:
’’وعلے اے اے اے کُم السّلام!‘‘
پھر احساسِ شرمندگی سے ہمراہی کی طرف مڑکر دیکھتے ہیں کہ اتنی دیر سے ہمارے پیچھے پیچھے چلا آتا ہے اور ہم نے اِس سلام کنندہ کو پہچانا تک نہیں۔ مگر سلام کنندہ ہمارے اِس جوابی اور پُرتپاک سلام پر، ہمارے اتنی محبت سے دیکھنے کے باوجود، اپنی لال لال انگارہ سی آنکھیں نکال کر ہمیں گھورتا ہے۔ گویا ہم نے سلام کا جواب نہ دیا ہو، اُس کا مذاق اُڑایا ہو‘ اُس کا منہ چڑایا ہو یا ہم سے تمیز وتہذیب سے گری ہوئی کوئی حرکت سرزد ہوگئی ہو۔ اب جب ذرا غور سے دیکھتے اور سُنتے ہیں تو ہم اُسے اپنے بجائے کسی ’’غیرمرئی غیر‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ ہم ہی ایک بار پھر شرمندہ ہوجاتے ہیں‘ اور سائنس دانوں کی اِس بات پر ایک بار پھر ایمان لے آتے ہیں کہ:
’’موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں اُن سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے‘‘۔
سُنا ہے کہ موبائل فون بھی سائنس دانوں ہی نے ایجاد کیا ہے۔ سو‘ گُمان غالب ہے کہ جن سائنس دان صاحب نے اسے ایجا دکیا ہوگا اُن کے دماغ کو سب پہلے نقصان پہنچا ہوگا۔۔۔ (موبائل فون ایجاد کرنے کے محض خیال ہی سے!)
موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں اُن سے ہمارے شہر کراچی کے نوجوانوں کے دماغ کو جتنا نقصان پہنچا ہے‘ اُتنا شاید ہی کسی اور شہر کے نوجوانوں کے دماغوں کو پہنچا ہو۔ انھی شعاعوں کے سبب‘ہمارا ہر ’’دوسرا نوجوان‘‘ اسلحہ ہاتھ میں لیے موٹرسائیکل پر چڑھا یا پیدل کھڑا ہر ’’پہلے نوجوان‘‘ (یا بوڑھوں‘ بچوں اور خواتین) سے موبائل فون چھینتا نظر آتا ہے۔ جس شخص کا موبائل فون چھن جاتا ہے‘ پرس یا جیب کے ساتھ ساتھ اُس کے دماغ کو بھی اچھا خاصا نقصان پہنچتا ہے۔
موبائل فون کے نقصانات کی فہرست تو بہت طویل ہے اور غیر مختتم بھی۔ کیوں کہ ہرشخص اِس فہرست میں روزانہ اپنے تازہ تجربات کا اضافہ ہی کرتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً: موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں‘ اُن کا ایک نقصان یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان سے انسان کے ’’حق خلوت‘‘ میں خلل پڑا ہے۔ ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ ہر شخص کی Privacy کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ مگر کس حد تک متاثر ہوئی ہے؟ اس کا اندازہ نہ تھا۔ اندازہ ہوا تو ہمیں ایک ایسے قاری کی معذرت سے ہوا، جو ہماے پنکھ (Fan) بھی ہیں۔ فون پر فرماتے ہیں:
’’اُس روز میں اپنے واش رُوم کے کموڈ پر اُکڑوں بیٹھا ہوا تھا‘کہ آپ نے میرے موبائل فون کا باجا بجا دیا۔ جلدی اور گھبراہٹ میں پتلون کی جیب سے موبائل نکالا اور اسے سنبھالتے ہوئے ابھی صرف ’’ہیلو!‘‘ ہی کہا تھا کہ موبائل ہاتھ سے پھسلا اورکموڈ میں گِر گیا۔ وہیں سے آپ کی آواز اُبھرتی اور ڈوبتی رہی کہ ۔۔۔ ’’آپ اِس وقت کہاں ہیں؟‘‘۔۔۔ ’’آپ اِس وقت کہاں ہیں؟‘‘ ۔۔۔ اب میں آپ کو کیا بتاتا کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور مجھے آپ کی آواز کہاں سے آرہی ہے۔ لہٰذا میں نے اپنے گھٹنوں میں سردے کر زور سے چِلّاتے ہوئے آپ سے کہا ۔۔۔ ’’میں آپ کو ابھی کال بَیک کرتا ہوں‘‘ ۔۔۔ میں اتنی زور سے چلایا کہ میری آواز سُنتے ہی میری اہلیہ محترمہ بوکھلا کر بھاگی بھاگی آئیں اور واش رُوم کا دروازہ پیٹ پیٹ کر پاگل ہو گئیں:
’’ارے کیا ہوگیا؟ ببوا کے ابا؟ ۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا؟۔۔۔ خیریت سے تو ہونا؟ ۔۔۔ کیوں منہ سے بھی آہ و فغاں کر رہے ہو؟‘‘
وغیرہ وغیرہ۔ تو صاحب! معذرت خواہ ہوں کہ اس کے بعد موبائل ہی اِس لائق نہیں رہا تھا کہ آپ جیسے قابلِ احترام کالم نگار کو اُس پلید کے ذریعے سے مخاطب کیا جاتا‘‘۔