قومی اداروں کی بندوق گردی

496

کراچی میں عوام سے بھتا لینے کی شکایات تو عام تھیں لیکن اب ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ ایم ڈی واٹر بورڈ نے شکایت کی ہے کہ کچھ ادارے گن پوائنٹ پر پانی لیتے ہیں۔ انہوں نے واٹر کمیشن کے سربراہ امیر ہانی مسلم کے روبرو بیان میں کہاکہ کچھ ادارے بندوق کی نوک پر پانی لیتے اور ہمارے عملے کو یرغمال بنالیتے ہیں۔ جب ان اداروں کو کام کرنا ہو تو چار سو میل آگے جاکر بھی کام کرلیتے ہیں۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے حوالہ دیا کہ ایک روز قبل ایک قومی ادارے کے مسلح افراد سادہ لباس میں آئے اور ہمارے عملے کو یرغمال بناکر ہائیڈرنٹ بند کرادیا، مغلظات بکیں، ہائیڈرنٹ انچارج خالد فاروق کو مارا پیٹا گیا اغوا کرکے لے گئے ادھر ادھر گھمایا پھرایا پھر چھوڑدیا۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کی شکایت میں مزید انکشاف یہ ہوا ہے کہ شاہ فیصل کالونی ہائیڈرنٹ بند کرکے پی اے ایف بیس کو اضافی پانی دیا جاتا ہے۔ کارساز پمپنگ اسٹیشن کو بھی گن پوائنٹ پر آپریٹ کرایا جاتا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کے انکشافات کے بعد اگر واٹر کمیشن صرف سیکرٹری دفاع کو طلب کرتا ہے تو اس کا مطلب محض کاغذی کارروائی اور لیپا پوتی ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے تو اپنی نوکری اور جان ہتھیلی پر رکھ کر حقائق بیان کردیے۔ اہل کراچی کو بھی پتا چل گیا کہ ان کا پانی کون پی جاتا ہے۔ گن کلچر اور بھتا کلچر کے لیے ان ہی قومی اداروں کے پالے ہوئے سیاسی ونگ کے لوگ مشہور تھے لیکن قومی اداروں کو بندوق اس لیے تو نہیں دی جاتی کہ وہ شہریوں کا پانی بھی پی جائیں۔ کیا ایم ڈی بھی میاں نواز شریف سے ملے ہوئے ہیں جو خلائی مخلوق پر الزامات لگارہے تھے جن کو ایم ڈی نے قومی ادارہ کہہ دیا۔ لیکن کیا یہ حقائق نہیں کہ پورا کراچی پانی کے لیے ترس رہا ہے اور ہمارے بندوق بردار ادارے زبردستی پانی لے کر جارہے ہیں۔ واٹر کمیشن میں دیگر امور بھی زیر بحث آئے اور بیشتر کا لب لباب یہی تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ساحل سمندر پر تعمیرات ہورہی ہیں بڑے بڑے پروجیکٹ بن رہے ہیں سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے سب کا گندہ پانی سمندر میں مل رہا ہے یہ بھی طاقتور لوگوں کی سوسائٹی کی تعمیرات ہیں۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے اس حوالے سے بھی سخت ہدایات دی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں بندوق ہے وہ کسی قاعدے قانون کے پابند ہوسکتے ہیں؟ پانی تو ایسی چیز ہے کہ اس کے لیے دنیا بھر میں جنگیں ہوتی رہی ہیں ملک کے طول و عرض میں ایک نہر کا رخ بدلنے پر برسوں جھگڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ان جھگڑوں میں دونوں فریق مسلح ہوتے ہیں۔ یہاں معاملہ بے دست و پا غیر مسلح مجبور عوام اور بندوق والے اداروں کا ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کی جرأت ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے واٹر کمیشن میں شکایت کردی۔ دیکھتے ہیں واٹر کمیشن محض احکامات اور ہدایات تک محدود رہتا ہے یا عوام کو پانی بھی ملتا ہے۔؟؟