اللہ جانے کیا ہونے والا ہے اور پاکستان کا کیا بننے والا ہے۔ جس ادارے کے متعلق پوری پاکستان کی قوم اپنے دل میں انتہائی عزت و احترام رکھتی ہے اسی ادارے کی جانب سے ایک تسلسل کے ساتھ دل دکھا دینے والی خبروں کا ملنا باعث تشویش اور ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکر ہے۔ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خفیہ سروس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کو را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کی وضاحت کے لیے جی ایچ کیو طلب کیا گیا ہے۔ ایک تو ہر معاملے میں ہمارے اداروں کا دہرا معیار ہی آزار جان ہے اور دوسرے یہ کہ کارروائی اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب پانی پلوں پر سے بھی گزرجاتا ہے، یہ بات تمام باتوں سے کہیں زیادہ قابل تشویش اور باعث خجالت ہے۔ یہ بات بھی قابل مواخذہ ہے کہ اسی قسم کی کوئی ذرہ برابر غلطی کسی سویلین سے سرزد ہوجائے تو پھر اس کے پاؤں زمین و آسمان کے درمیان لٹکانے میں لمحہ بھی نہیں لگا کرتا۔ یہی وہ دہرا رویہ و معیار ہے جس کو ہر سطح پر ختم ہوجانا چاہیے۔ ایک ایسی کتاب جو پاکستان کے حساس ادارے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز (ر) جنرل اسد درانی نے لکھی ہو اور وہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ’’را‘‘ کے ریٹائرڈ سربراہ ’’اے ایس دولت‘‘ کے ساتھ مل کر تو پھر کوئی یہ بتائے کہ درمیان میں راز کے پردے کا کیا کوئی ایک تار بھی سلامت رہ جانے کا اعتبار کیا جا سکتا ہے؟۔ کیا دونوں سربراہوں کی ملاقاتیں کم قیامت تھیں کہ اس کے بعد کتاب کا بھی سامنے آجانا اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس مشترکہ کتاب کی افتتاحی تقریب کا بھارت ہی میں منعقد ہونا، کیا اور بھی کوئی کسر رہ جاتی ہے ملک کے ساتھ مذاق کی کہ ایسے فرد کو جی ایچ کیو محض اس لیے طلب کیا جائے کہ وہ اس مشترکہ پیشکش کی صرف ’’وضاحت‘‘ پیش کرے۔
کتاب تو ابھی کوئی ہفتہ دس دن قبل شائع ہوئی ہے لیکن ایک بات جو بہت ہی قابل غور وفکر ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ بات کم لائق سزا نہیں کہ پاکستان کے نہایت حساس ادارے آئی ایس آئی کا سابق سربراہ دشمن ملک کے ادارے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ کے ساتھ ملاقاتیں کرے اور وہ بھی ایک دو نہیں متعدد ملاقاتیں اور پھر پاکستان اور بھارت تک ہی ان ملاقاتوں کا سلسلہ محدود نہ رہا ہو بلکہ یہ ملاقاتیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتی رہی ہوں اور ان ملاقاتوں میں کئی کئی ہفتے صرف کیے گئے ہوں لیکن ان ساری سرگرمیوں کا پاکستان کی سب سے اور دنیا کی مانی ہوئی ایجنسی کو علم ہی نہ ہو سکا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ اتنے اہم عہدے پر متمکن کوئی بھی فرد خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو اس کے سینے میں اپنے ملک کے کتنے راز پوشیدہ ہوتے ہوں گے۔ ایسے فرد کا کسی دوسرے ملک کے حساس ادارے کے سربراہ سے ملنا اور وہ بھی دشمن ملک کے ساتھ کئی کئی راتیں گزار نا بجائے خود ایک قابل گرفت بات ہے۔ کیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان ساری ملاقاتوں سے ہمارا خفیہ کا سب سے بڑا ادارہ بالکل ہی بے خبر رہا ہوگا؟۔ اگر واقعی بے خبر رہا ہے تو تب بھی یہ ایک بہت بڑی اور بری خبر ہے اور اگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی کتاب کی اشاعت اور تشہیر سے قبل کسی بھی قسم کا رد عمل سامنے نہ آنا (خدا نخواستہ) اس بات کا اشارہ ہے کہ صرف اسد درانی ہی قصور وار نہیں بلکہ محکمانہ غفلت اور بے خبری پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اب بھی اگر انہیں جی ایچ کیو طلب کیا جارہا ہے اور وہ بھی محض ’’وضاحت‘‘ کے لیے تو ہر عام و خاص کے لیے یہ طلبی تشنہ لبی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اس بات کو یوں سمجھیں جیسے میں پاکستان کی دوتین بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کا سربراہ ہوں۔ کیا پاکستان کے ادارے اس بات کو گوارہ کریں گے کہ میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے کسی سابق سربراہ کے ساتھ ملکوں ملکوں گھوموں اور راتیں کالی کروں؟۔ جبکہ میرے پاس کسی بھی حساس نوعیت کی کوئی ایک راز کی بات بھی نہ ہو؟۔ کسی پارٹی کا لیڈر ہونے کے ناتے میری ایسی کسی بھی ملاقات کو نہ تو برداشت کیا جائے گا اور نہ ہی برداشت کیا جانا چاہیے۔ جب ایک عام رہنما کی ملاقاتیں ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں تو پھر سابق سربراہ کی ملاقاتوں کا سخت نوٹس کیوں نہ لیا گیا؟، یہ بات از خود ’’وضاحت‘‘ طلب معاملہ ہے جس کا تشفی بخش جواب ضرور آنا چاہیے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی 28 مئی کو جی ایچ کیو میں طلب کیے گئے ہیں۔ بیان کے مطابق اسد درانی خود سے وابستہ ان بیانات کی وضاحت پیش کریں جن کے مطابق انہوں نے انڈین ایجنسی را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر ’اسپائی کرونکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوڑن آف پیس‘ نامی کتاب لکھی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ: ’اس عمل کو فوجی ضابطہ کار کی خلاف ورزی کے طور پر لیا گیا ہے جس کا اطلاق حاضر سروس اور ریٹائرڈ تمام فوجی اہلکاروں پر ہوتا ہے۔‘ اس سے پہلے انڈیا کے خفیہ ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے انڈیا کے ایک سرکردہ ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی پر انٹر ویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے اور پاکستان کی خفیہ سروس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے انڈیا اور پاکستان کی صورت حال کے پس منظر میں مشترکہ طور پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ’اسپائی کرونکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوڑن آف پیس‘ ہے۔
ان کے مطابق دونوں سابقہ جاسوسوں نے کتاب کا بیش تر حصہ دبئی، استنبول اور کھٹمنڈو میں لکھا ہے۔ اے ایس دولت کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ایک مشترکہ کتاب لکھتے ہیں یہی ایک غیر معمولی بات ہے۔ اے ایس دولت کا یہ کہنا کہ: ’’امن مشکل ضرور ہے لیکن اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ بولنے میں کتنا بھلا لگتا ہے لیکن کیا وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ برصغیر کے اس پورے خطے میں اگر بد امنی اور بے چینی پائی جارہی ہے تو اس میں خود ان کے اپنے ملک کا کتنا ہاتھ ہے؟۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں کس کا کردار تھا۔ سری لنکا میں کس نے غدر مچا رکھا تھا۔ نیپال کس کی سازشوں میں گھرا ہوا ہے۔ افغانستان میں کون ہے جو بیٹھ کر افغانستان کی صورت حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ مقبوضہ بھارتی کشمیر میں روز بے گناہوں کے خون سے ہولی کون سا پیغام امن ہے۔ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کون خلفشار مچانے کے درپے ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر صورت میں ان سے طلب کیا جانا چاہیے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے منہ سے ’’امن‘‘ کی بات کچھ زیب نہیں دیتی۔ بقول جوش ملیح آبادی
اعدائے پیرویِ دین و ایماں اور تو
دیکھ اپنی کوہنیاں جن سے ٹپکتا ہے لہو
اس میں کوئی شک نہیں کہ امن کا حصول ناممکن نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کا ملک (بھارت) خطے کے دوسرے ممالک میں مداخلت سے باز رہے۔ اگر مداخلت کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو خود اس کے لیے بھی اس خطے میں سکون کے ساتھ رہنا ممکن نہ رہے گا۔ اس موقعے پر ہم جی ایچ کیو سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ سابق آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی سے کتاب کے مندرجات کی جو وضاحت طلب کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن ان کی بھارت کے خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ سے ملاقاتوں پر بھی مواخذہ کریں اور ہر ریٹائرڈ آفیسر پر کڑی نظر رکھیں جو ریٹائرڈمنٹ کے بعد دشمن ملک کے کسی بھی عسکری آفیسر سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ رکھتا ہو۔