آم  پھلوں کا بادشاہ

1188

حکیم راحت نسیم سوہدروی

پھلوں کے بادشاہ آم کا شمار برصغیر کے بہترین پھلوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک مقبول پھل ہے، جسے برصغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ آم کو برصغیر کا جلیل القدر پھل، جنت کا میوہ اور دیوتاؤں کا بھوگ جیسے نام دیے گئے ہیں۔ آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے سب سے منفرد ہے اور برصغیر میں کاشت کے سبب سستا اور سہل الحصول بھی ہے۔ آم کا درخت خوب پھل لاتا ہے۔ اس کی سیکڑوں اقسام ہیں۔ برصغیر کو آم کا گھر بھی کہتے ہیں، یہاں کے قدیم باشندے بھی بڑی رغبت سے استعمال کرتے تھے ۔
فرانسیسی مؤرخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم 4 ہزار سال قبل بھی بویا جاتا تھا۔ آج کل جنوبی ایشیا کے ممالک میں بڑے پیمانے پر تجارتی طور پر کاشت کیا جاتا ہے اور اب تو جنوبی امریکا میں بھی بڑے پیمانے پر کاشت ہونے لگی ہے مگر ذائقے، تاثیر اور اقسام کے لحاظ سے اب بھی برصغیر ہی کو برتری حاصل ہے ۔
ویسے تو آم کی کئی د اقسام ہیں جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا تاہم 2 قسمیں عام ہیں :تخمی اور قلمی۔ کچا آم جن میں گٹھلی نہیں ہوتی، کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ بعض حالات میں اس کا استعمال نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔ البتہ پکا ہوا آم شیریں اور کبھی کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی آم کو تراش کر لیا جاتا ہے۔ آم قلمی ہو یا تخمی بہر صورت پکا ہوا لینا چاہیے کیونکہ اس کے فوائد مسلم ہیں اور یہ رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور زود ہضم ہونے کے ناطے جلد جزو بدن بنتا ہے۔ پکا ہوا رسیلا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم خشک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے استعمال کے بعد کچی لسی پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس طرح آم کی گرمی خشکی جاتی رہتی ہے۔ جو لوگ کچی لسی ( دودھ میں پانی ملا ہوا ) استعمال نہیں کرتے ایسے لوگ عام طور پر منہ میں چھالے یا پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت کرتے ہیں۔
آم کے بعد کچی لسی پینے سے جسم میں فربہی ہوتی ہے اور تازگی آتی ہے۔ معدہ، مثانہ اور گردوں کو طاقت پہنچتی ہے۔ آم کا استعمال اعضائے رئیسہ دل و دماغ اور جگر کے لیے مفید ہے۔ آم میں نشاستہ دار اجزا ہوتے ہیں۔ اس سے جسم موٹا ہوتا ہے ۔ اپنے قبض کشا اثرات کے باعث اجابت با فراغت ہوتی ہے۔ آم جس قدر میٹھا اور رسیلا ہو گا اسی قدر گرم ہو گا جس قدر کم میٹھا یعنی ترش ہو گا اس قدر نیم گرم ہو گا۔ اپنے مصفی خون تاثیر کے سبب چہرے کی رنگت کو نکھارتا اور حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سے زیادہ خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں حیاتین الف و ج تمام پھلوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کچا آم اپنی تاثیر کے ناطے ٹھنڈا ہوتا ہے اور ذائقے کے لحاظ سے ترش ہوتا ہے۔ یہ بھی اپنے اندر بے شمار غذائی و دوائی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک لگتی ہے اور صفرا کم ہوتا ہے۔ موسمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لُو کے خدشات سے بچاتا ہے۔ البتہ ایسے لوگ جن کو نزلہ، زکام اور کھانسی ہو ان کو ہر گز استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے ۔
آم جو پکا ہوا اور رسیلا ہو تمام عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے ۔ جو بچے لاغر اور کمزور ہوں ان کے لیے تو عمدہ قدرتی ٹانک ہے۔ حاملہ عورتوں کو استعمال کرنا چاہیے، یوں بچے خوبصورت ہوں گے ۔ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اگر استعمال کریں تو دودھ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف خون پیدا کرنے والا قدرتی ٹانک ہے بلکہ گوشت بھی بناتا ہے اور نشائی اجزا کے علاوہ فاسفورس، کیلشیم، فولاد، پوٹاشیم اور گلوکوز بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے دل و دماغ اور جگر کے ساتھ سینہ اور پھیپھڑوں کے لیے بھی مفید ہے۔ البتہ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آم کا استعمال خالی معدہ نہیں کرنا چاہیے اور آم استعمال کرنے کے بعد دودھ پانی ملا کر ضرور استعمال کرنا چاہیے یوں آم کے فوائد بڑھ جائیں گے۔ بعض لوگ آم کھانے کے بعد گرانی محسوس کرتے ہیں اور بوجھل طبیعت ہو جاتی ہے ۔ انہیں آم کے بعد جامن کے چند دانے استعمال کرنے چاہییں۔ جامن آم کا مصلح ہے ۔
آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آ چکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں :
دسہری :
اس کی شکل لمبوتری، چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے ۔ گودا گہرا زرد، نرم، ذائقہ دار اور شیریں ہوتا ہے ۔
چونسا :
یہ آم قدرے لمبا، چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے ۔ اس کا گودا گہرا زرد نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے ۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری، سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے ۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت ) کے قریبی قصبے چونسا سے ہوئی۔
انوررٹول :
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ موٹا، چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ ٹھوس سرخی مائل زرد نہایت شیریں، خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے ، اس کی گٹھلی درمیانہ بیضوی اور نرم ریشہ سے ڈھکی ہوتی ہے ۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ ( بھارت ) کے قریب رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا :
اس قسم کا آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے ، اس کا چھلکا چکنا بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے ، گودا سرخی مائل زرد خستہ بے حد عمدہ شیریں، رس دار ہوتا ہے ۔
الماس :
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ چھلکا زردی مائل سرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم دار شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے ۔
فجری :
یہ بیضوی لمبوترا ہوتا ہے ۔ فجری کا چھلکا زردی مائل، سطح برائے نام کھردری، چھلکا موٹا اور نفیس گودے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ گودا زردی مائل سرخ، خوش ذائقہ، رس دار ریشہ برائے نام ہوتا ہے ، اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشہ دار ہوتی ہے ۔
سندھڑی :
یہ قسم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے ، اس کا سائز بڑا، چھلکا زرد چکنا باریک، گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے ۔ گودا زرد، شیریں رس دار اور گٹھلی لمبی و موٹی ہوتی ہے ۔
غلام محمد والا :
یہ شکل میں گول ہوتا ہے سائز درمیانہ، چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے ۔ گودا پیلا ہلکا ریشہ دار اور رسیلا ہوتا ہے ۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے ۔
مالرا :
بہت بڑا سائز گٹھلی انتہائی چھوٹی، چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے ۔
نیلم :
سائز درمیانہ، چھلکا درمیانہ موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے ۔
سہارنی :
سائز درمیانہ، ذائقہ قدرے میٹھا ہوتا ہے ۔