آداب زندگی 

562

خوشی کے آداب
مولانایوسف اصلاحی

1۔ خوشی کے مواقع پر خوشی منایئے ۔ خوشی انسان کا طبعی تقاضا اور فطری ضرورت ہے ۔ دین فطری ضرورتوں کی اہمیت کو محسوس کرتا ہے اور کچھ مفید حدود و شرائط کے ساتھ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دین ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آپ مصنوعی وقار ،غیر مطلوب سنجیدگی ، ہر وقت کی مردہ دلی اور افسردگی سے اپنے کردار کی کشش کو ختم کر دیں ۔وہ خوشی کے تمام جائز مواقع پر خوشی منانے کا پورا حق دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ آپ ہمیشہ بلند حوصلوں ، تازہ ولولوں اور نئی امنگوں کے ساتھ تازہ دم رہیں ۔ جائز مواقع پر خوشی کا اظہار نہ کرنا اور خوشی منانے کو دینی وقار کے خلاف سمجھنا دین کے فہم سے محرومی ہے ۔
آپ کو کسی دینی فریضے کو انجام دینے کی توفیق نصیب ہو ۔ آپ یا آپ کا کوئی عزیز علم و فضل میں بلند مقام حاصل کر لے ، خدا آپ کو مال و دولت یا کسی اور نعمت سے نوازے ، آپ کسی لمبے سفر سے بخیریت گھر واپس آئیں ، آپ کا کوئی عزیز کسی دور دراز سفر سے آئے ، آپ کے یہاں کسی معزز مہمان کی آمد ہو ، آپ کے یہاں شادی بیاہ یا بچے کی پیدائش ہو ، کسی عزیز کی صحت یا خیریت کی خبر ملے یا اہل اسلام کے فتح و نصرت کی خوشخبری سنیں یا کوئی اہم موقع ہو ۔ اس طرح کے تمام مواقع پر خوشی منانا آپ کا فطری حق ہے اسلام نہ صرف خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دینداری قرار دیتا ہے ۔
حضرت کعب ابن مالک ؓ کا بیان ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے میری توبہ قبول فرما لی ، اور مجھے خوشخبری ملی ، تو میں فوراً نبی ؐ کی خدمت میں پہنچا ۔ میں نے جا کر سلام کیا ۔ اس وقت نبی ؐ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا اور نبی ؐ کو جب بھی کوئی خوشی حاصل ہوتی تو آپ کا چہرہ اس طرح چمکتا کہ جیسے چاند کا کوئی ٹکڑا ہے ۔ اور ہم آپ ؐ کے چہرے کی رونق اور چمک سے سمجھ جاتے کہ آپ اس وقت انتہائی مسرور ہیں ۔ ( ریاض الصالحین)
2۔ تہوار کے موقع پر اہتمام کے ساتھ خوب کھل کر خوشی منایئے اور طبیعت کو ذرا آزاد چھوڑ دیجیے ۔ نبی ؐ جب مدینے تشریف لائے تو فرمایا ۔
’’ تم سال میں دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے ۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ لہٰذا سال کے ان دو اسلامی تہواروں میں خوشی اور مسرت کا پورا مظاہرہ کیجیے اور مل جل کر ذرا کھلی طبیعت سے کچھ تفریحی طبیعت سے کچھ تفریحی مشاغل فطری انداز میں اختیار کیجیے اسی لیے ان دونوں تہواروں میں روہ رکھنے کی ممانعت ہے ۔
بچوں کو موقع دیجیے کہ وہ جائز قسم کی تفریح اور کھیلوں سے جی بہلائیں اور کھل کر خوشی منائیں ۔
حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ عید کا دن تھا ۔ کچھ لونڈیاں، بیٹھی وہ اشعار گا رہی تھیں جو جنگ بعاث سے متعلق انصار نے کہے تھے کہ اسی دوران حضرت ابو بکر ؓ تشریف لے آئے ۔ بولے ’’ نبی ؐ کے گھر میں یہ گانا بجانا!‘‘ نبی ؐ نے فرمایا’’ ابو بکر رہنے دو ۔ ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے ۔ ‘‘
ایک بار عید کے دن کچھ حبشی بازیگر فوجی کرتب دکھا رہے تھے ۔ آپ ؐ نے یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہ ؓ کو بھی اپنی آڑ میں لے کر دکھائے۔ آپ ؐ ان بازیگروں کو شاباش بھی دیتے جاتے تھے ۔ جب حضرت عائشہ ؓ دیکھتے دیکھتے تھک گئیں تو آپ ؐ نے فرمایا اچھا اب جائو ۔ ( بخاری)
3 ۔ خوشی منانے میں ، اسلامی ذوق اور مزاج اور اسلامی ہدایات و آداب کا ضرور لحاظ رکھیے ۔ جب آپ کو کوئی خوشی حاصل ہو تو خوشی دینے والے کا شکریہ ادا کیجیے۔ اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لایئے ۔ خوشی کے ہیجان میں کوئی ایسا عمل یا رویہ اختیار نہ کیجیے جو اسلامی مزاج سے میل نہ کھائے ۔ اور اسلامی آداب و ہدایات کے خلاف ہو ، مسرت کا اظہار ضرور کیجیے ۔ لیکن اعتدال کا بہر حال خیال رکھیے ، مسرت کے اظہار میں اس قدر آگے نہ بڑھیے کہ فخر و غرور کا اظہار ہونے لگے ۔ اور نیاز مندی ، بندگی اورعاجزی کے جذبات دبنے لگیں قرآن میں ہے ۔
’’ اور ان نعمتوں کو پا کر اترانے نہ لگو جو خدا نے تمہیں دی ہیں ۔ خدا اترانے والے اور بڑائی جتانے والے کو نا پسند کرتا ہے ۔ ‘‘( الحدید۔23)
اور خوشی میں ایسے سر مست بھی نہ ہو جائو کہ خدا کی یاد سے غافل ہونے لگیں ، مومن کی خوشی یہ ہے کہ وہ خوشی دینے والے کو اور زیادہ یاد کرے ۔ اس کے حضور سجدہ شکر بجا لائے ۔ اور اپنے عمل و گفتار سے ، خدا کے فضل و کرم اور عظمت و جلال کا اور زیادہ اظہار کرے ۔
رمضان میں مہینے بھر کے روزے رکھ کر اور شب میں تلاوت قرآن اور تراویح کی توفیق پا کر جب آپ عید کا چاند دیکھتے ہیں تو خوشی میں جھوم اُٹھتے ہیں کہ خدا نے جو حکم دیا تھا آپ خدا کی دستگیری سے اس کی تعمیل میں کامیاب ہوئے ۔ اور آپ فوراً اپنے مال میں سے اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کا حصہ ان کو پہنچا دیتے ہیں کہ اگر آپ کی عبادتوں میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو اور بندگی کا حق ادا کرنے میں کوئی غفلت ہوئی ہو تو اس کی تلافی ہو جائے اور خدا کے غریب بندے بھی عید کی خوشی میں شریک ہو کر خوشی کا اجتماعی اظہار کر سکیں اور پھر آپ خدا کی اس توفیق پر عید کی صبح کو دوگانہ شکر ادا کر کے اپنی خوشی کا صحیح صحیح اظہار کرتے ہیں اور اسی طرح عید الاضحیٰ کے دن حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد گار منا کر اور قربانی کے جذبات سے اپنے سینے کو سر شار پا کر سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ اور پھر آپ کی ہر ہر بستی میں سارے گلی کوچے اور سڑکیں تکبیر و تہلیل اور خدا کی عظمت کی صدائوں سے گونج اٹھتی ہیں اور پھر آپ خدا کی شریعت کے مطابق جب عید کے ایام میں اچھا کھاتے ، اچھا پہنتے ہیں اور خوشی کے اظہار کے لیے جائز طریقوں کو اختیار کرتے ہیں تو آپ کی یہ ساری سرگرمیاں یاد الٰہی بن جاتی ہیں ۔